ترکی سے چلنے والے اردو زبان کے نیوز پورٹل ترکیہ اردو نے ایک تصویر ٹویٹ کرکے دعویٰ کیا کہ بھارت میں توہینِ رسالت مآب ﷺ کے خلاف مظاہرہ کرنے کے سبب پولیس مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ تصویر میں خاتون پولیس اہلکار کو ایک لڑکی کو کھینچ کر لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
نیوز پورٹل نے اپنے ٹویٹ میں لکھا-’بھارت میں مسلمان خواتین کا احتجاج ایک خاتون پولیس اہلکار احتجاج کرنے والی خاتون کو کھینچ کر لے جا رہی ہے، بھارت میں ناموس رسالت ﷺ کے خلاف احتجاج جاری ہے #Islamophobia_in_india #IndianMuslimsUnderAttack‘۔
اس ٹویٹ کو 1900 سے زیادہ بار ری-ٹویٹ کیا گیا اور 4700 سے زیادہ بار لائک کیا گیا۔
فیکٹ چیک:
وائرل تصویر کا فیکٹ چیک کرنے کے لیے DFRAC نے پہلے اسے انٹرنیٹ پر ریورس امیج سرچ کیا۔ تو ہمیں یہ تصویر فریٹرنِٹی موومنٹ کیرالا کے فیس بک پیج پر ملی۔ اس تصویر کو 13 جون کو اس کیپشن کے ساتھ پوسٹ کیا گیا ہے، ’پولیس نے فریٹرنِٹی مومنٹ کی قومی سکریٹری عائشہ رینّا این کو گرفتار کیا اور کیرالا کے ملاپورم میں نیشنل ہائی وے کو بلاک کرنے کے بعد کئی دیگر ارکان پر لاٹھی چارج کیا‘۔
علاوہ ازیں ہمیں ایک دیگر پوسٹ میں ملیالم زبان کے اخبارات کی کچھ خبریں بھی ملی ہیں۔ مظاہرے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ مظاہرہ یوپی کے پریاگ راج میں ایکٹیوِسٹ (سماجی کارکُن) آفرین فاطمہ کے گھر کو مسمار کیے جانے کے خلاف کیا گیا تھا۔ اُن پر، اِن پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
نتیجہ:
لہٰذا یہ واضح ہے کہ عائشہ رینا این کی گرفتاری کے بارے میں ترکیہ اردو کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔