ہر سال 02 اکتوبر کو گاندھی جینتی (یوم پیدائش) کے موقع پر بابائے قوم گاندھی جی کو نشانہ بناتے ہوئے سوشل میڈیا پر طرح طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر وکرم سمپت نامی یوزر نے ایک کوٹ-ری ٹویٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا،’1930 میں ایم کے گاندھی کو ذاتی اخراجات (خرد و نوش) کے لیے ماہانہ 100 روپے کی ادائیگی پر ایک اہم انکشاف۔ اتفاق سے یہ ‘سول نافرمانی تحریک’ کا دورِ عروج تھا۔ ماخذ: نیشنل آرکائیوز آف انڈیا‘۔
ساتھ ہی انہوں نے ایک لنک بھی شیئر کیا ہے۔
ٹویٹر بایو کے مطابق، ڈاکٹر سمپت، مورخ، 8 کتابوں کے مصنف، ڈائریکٹر @arth_live، فیلو @royalhistsoc، آرکائیو آف انڈین میوزک وغیرہ ہیں۔ انہوں نے دو حصوں میں ساورکر کی سوانح لکھی ہے۔
سمیر کستورے نے اپنے ٹویٹ میں لکھا،’ٹویٹ کرتے وقت مشہور کہاوت کو یاد کرتے ہوئے،’ڈاکٹر (ڈاکٹر) خود کو ٹھیک کریں‘۔ کیا ہمارے پاس 2 منٹ ہے؟ ایم کے گاندھی کو 100 روپے کے الاؤنس کے لیے خط۔ نہیں نہیں، حیران نہ ہوں، یہ ’پینشن‘ ہے۔
فیکٹ چیک
ہم نے انٹرنیٹ پر اس سلسلے میں کچھ مخصوص کی-ورڈ کی مدد سے سرچ کیا۔ ہمیں thecrediblehistory.com کے بانی، مصنف اور مورخ اشوک کمار پانڈےکا ایک ٹویٹ ملا، جس میں انھوں نے لکھا،’کیا گاندھی کو انگریزوں سے پینشن ملتی تھی؟ دیکھیں سچ: Did #mahatmagandhi asked for allowances ? Link: https://youtu.be/7IOEhQIkQ7c‘۔
ہم نے ان کے یوٹیوب چینل اشوک کمار پانڈے پر ویڈیو دیکھا، جسے عنوان دیا گیا ہے،’ کیا #gandhi نے انگریزوں سے بھتہ مانگا تھا؟ Did #mahatmagandhi asked for allowances?‘۔
مورخ اشوک کمار پانڈے کو اس ویڈیو میں 3:40 منٹ پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے،’ پہلی بات تو یہ کہ (جیل میں قیدی کے بھتے کے خط کو) پیش ایسے کیا گیا جیسے یہ کوئی نئی معلومات ہو۔ جیسا کہ یہ انہیں (گاندھی) کو دیا جا رہا ہو۔ پورا معاملہ یہ تھا کہ گاندھی اس وقت یرودا جیل میں تھے۔ جیل اتھارٹی نے گاندھی اور ان کے ساتھیوں کے لیے بجٹ پاس کیا۔ آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ اس دور کے کسی بھی شخص کی سوانح عمری پڑھیں تو ہر قیدی کے حساب سے کچھ نہ کچھ بجٹ (کھانے اور دیگر ضروریات کے لیے) ہوتا تھا۔ راہل سنکرتیان کی سوانح عمری پڑھتے ہوئے بھی میں نے پڑھا تھا کہ بہت سے قیدی بھتے میں اضافے کا مطالبہ کرتے تھے۔ جب آپ جیل میں رہتے ہیں تو آپ کو دال اور روٹی ملے، دیگر ضروریات پوری ہوں، اس کے لیے ایک بجٹ دیا جاتا ہے‘۔
ویڈیو میں مزید اشوک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جو پہلی بار سامنے آئی ہو۔ 10 مئی 1930 کو گاندھی نے محکمہ داخلہ کے میجر ای ای ڈوئل کو ایک خط لکھا۔
اس خط میں گاندھی جی نے لکھا تھا کہ حکومت نے مجھے تجویز دی ہے کہ میرے اور میرے ساتھیوں کے جیل کے اخراجات کے لیے 100 روپے دیے جائیں۔ مجھے امید ہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ آپ مجھے تمام سہولیات دینے کی تجویز دے رہے ہیں، مجھے امید ہے کہ جب میں اسے ٹھکرا رہا ہوں تو آپ برا نہیں مانیں گے۔ میرے خیال میں یہاں جو لاکھوں لوگ بھوکے سوتے ہیں ان کے حصے کا پیسہ کاٹ کر اس طرح کا الاؤنس دیا جاتا ہے۔ جیلوں میں جو سلوک کیا جاتا ہے اس کے بارے میں میری رائے سخت ہے۔ میں درجہ بندی یعنی اے گریڈ کے قیدی، بی گریڈ اور سی گریڈ کے قیدی کے تحت مختلف سہولیات دیے جانے سے بالکل متفق نہیں ہوں ۔
گاندھی نے لکھا کہ میرا ماننا ہے کہ جو بھی قیدی ہے، خواہ وہ قاتل ہو، یہ اس کا حق ہے کہ اس کی ضروریات پوری ہوں۔
مورخ اشوک پانڈے کا کہنا ہے کہ یہ 100 روپے حکومت کو ان پر خرچ کرنے تھے، یہ گرانٹ نہیں تھی اور نہ ہی ان کے بینک اکاؤنٹ میں رقم (چیک) دی جاتی تھی۔ گاندھی جی کو ان کے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا، جن پر حکومت نے 100 روپے کے جیل الاؤنس کی پیشکش کی تھی، جسے باپو نے ٹھکرا دیا تھا۔
نتیجہ:
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ ڈاکٹر وکرم سمپت اور سمیر کستورے سمیت دیگر سوشل میڈیا یوزرس کا یہ دعویٰ کہ برطانوی حکومت گاندھی جی کو پینشن دیتی تھی غلط اور گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: برطانوی حکومت گاندھی کو 100 روپے ماہانہ پنشن دیتی تھی
دعویٰ کنندگان: ڈاکٹر وکرم سمپت اور سمیر کستورے و دیگر سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن