سوشل میڈیا سائٹس پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نربھیا کیس کے تمام قصورواروں کو پھانسی کی سزا ہوئی مگر جس نے سب سے زیادہ بربرتا کی تھی، اس کا نام محمد افروز ہے اور اسے نابالغ ہونے کے سبب چھوڑ دیا گیا۔
سیوا بھارت نیوز نے فیس بک پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے پوسٹ کیا،’سب کو پھانسی ہوئی لیکن ایک راکشس (خبیث) بچ گیا، "#محمد_افروز” جس کو اروند کیجریوال نے ایک "سلائی مشین” اور 10،000 روپے دیے تھے، جس نے نربھیا کے ساتھ اتنا گندے طریقے سے جنسی زیادتی کی وہ نابالغ کیسے؟؟؟؟ کیونکہ محمد افروز اےا ے پی کے رکن اسمبلی مسلم وقف بورڈ کے دہلی کے چیئرمین امانت اللہ خان کے چچا کا لڑکا تھا۔ کیجریوال نے مسلم وقف بورڈ کے وکیلوں کی ٹیم نے داؤں پیچ کھیل کر ڈاکٹری جھوٹی عمر کا میڈیکل سرٹیفکیٹ بنا کر بچا لیا‘۔
فیکٹ چیک
متذکرہ بالا دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے ہم نے گوگول پر کچھ کی-ورڈ کی مدد سے سرچ کیا۔ ہمیں اس بابت مختلف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے پبلش کئی رپورٹس ملیں۔
بی بی سی ہندی کی ایک رپورٹ کے مطابق نربھیا کیس میں کل 6 قصوروار تھے۔
بس ڈرائیور رام سنگھ اور اس کا چھوٹا بھائی مکیش سنگھ۔ ان کا خاندان 20 سال قبل راجستھان سے دہلی آیا تھا۔ ان کا گھر جنوبی دہلی کی روی داس جھگی جھوپڑی کالونی میں تھا۔ ان کے علاوہ جن لوگوں کو عدالت نے قصوروار پایا ان میں ونے شرما، اکشے ٹھاکر، پون گپتا اور ایک نابالغ تھے۔
ان میں سے رام سنگھ نے اپنی سزا کاٹتے ہوئے جیل میں خودکشی کر لی تھی اور نابالغ کو تین سال کے لیے اصلاح گھر بھیج دیا گیا۔ یہ ہندوستان کے قانون کے تحت کسی نابالغ کو دی جانے والی سزا کی طویل ترین مدت ہے۔ اس کا نام ظاہر کرنا قانوناً ممنوع ہے، اس لیے اس کا نام اور پتہ صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔
ون انڈیا نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان ٹائمس کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ایک نابالغ کی باز آبادکاری کے عمل میں شامل ایک افسر نے بتایاکہ اسے ہمیشہ مارے جانے کا ڈر لگا رہتا تھا۔ اس لیے اسے ساؤتھ انڈیا میں کہیں شفٹ کر دیا گیا۔ وہ فی الحال ایک معروف ریسٹورنٹ میں کام کر کے روزی روٹی کما رہا ہے۔ جس شخص نے اسے ملازمت پر رکھا تھا اسے بھی نابالغ کی ماضی کے بارے نہیں بتایا گیا ہے۔ افسر کا کہنا ہے کہ آفٹر کیئر پروگرام کے تحت ہم اس کی شناخت کو عام نہیں کر سکتے۔ اس کی حفاظت کرنا ہمارا کام ہے‘۔.
نتیجہ
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ نربھیا کیس میں نابالغ ہندو تھا یا مسلمان، قانون کے تحت اس کا نام اور پتہ خفیہ رکھا گیا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے؟ یہاں تک کہ اگر کوئی اسے جان بھی جائے اور اس کا نام اور پتہ ظاہر کرے تو یہ جرم ہوگا، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا یہ دعویٰ فیک اور گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: نربھیا کیس میں سب کو پھانسی ہوئی لیکن ایک راکشس #محمد_افروز بچ گیا
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: فیک