مسلمان راجاؤں-نوابوں کے بارے میں کئی طرح کے چرچے رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک سے بڑھ کر ایک کہانی بیان کی جاتی ہے۔ بہت سے دعوے کیے جاتے ہیں، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ سردار پٹیل نے مان سنگھ دوئم سے مدد مانگی تھی اور جے پور کے رام باغ پیلیس میں حیدرآباد کے نظام، جان بچانے کے لیے، اتنے مجبور تھےکہ منھ میں گھاس لے کر معافی مانگی تھی۔
فیس بک پر اومل کنور نامی یوزر نے لکھا،’ہمیں یہ کیوں نہیں پڑھایا گیا… (راجپوت شوریہ) حیدرآباد کے نظام نے آزاد ہندوستان میں ضم ہونے سے انکار کر دیا تھا اور وہاں کی شاہی فوج ہندوؤں کا قتل عام کر رہی تھی، اس وقت سردار پٹیل جی نے ریاست جے پور سے مدد مانگی تھی…. تب جے پور کے #مان سنگھ جی دوئم نے اپنی فوج راجپوتانہ رائفلس (مان گارڈس) کے ساتھ حیدرآباد پر چڑھائی کی تھی!! تین ہی دن میں راجپوتوں نے نظام کو گرفتار کرکے جے پور واقع رام باغ محل لے آئے، جہاں نظام نے اپنی جان بچانے کے لیے منہ میں گھاس لےکر معافی مانگی تھی اور کہا،’مہاراجہ! میں آپ کی گائے ہوں، مجھے معاف کر و‘۔ #حیدرآباد کو اپنے قبضے میں لے کر سردار پٹیل کو ساتھ لے کر بھارت میں #حیدرآباد کا انضمام مان سنھگ جی دوئم نے کروایا تھا۔#okmk‘۔
فیکٹ چیک
مذکورہ بالا دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے، ہم نے انٹرنیٹ پر کچھ مخصوص کی-ورڈ کی مدد سے ایک سمپل سرچ کیا۔ اس حوالے سے ہمیں مختلف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے پبلش متعدد رپورٹس ملیں۔
1948 میں ہندوستان میں انضمام سے قبل ریاست حیدرآباد پر تقریباً دو صدیوں سے آصف جاہی خاندان کی حکومت تھی۔ انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے کل رقبے سے بڑے رقبے پر مشتمل ریاست حیدرآباد میں 84 فیصد ہندو، 11 فیصد مسلمان اور باقی دیگر تھے۔ سماجی، لسانی اور ثقافتی نقطۂ نظر سے حیدرآباد ریاست، کثرت میں وحدت اور پرامن بقائے باہم کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ جس وقت انگریز ہندوستان چھوڑ رہے تھے، کشمیر، جوناگڑھ اور حیدرآباد کے علاوہ ہندوستان کی تمام 562 ریاستوں نے ہندوستان کے ساتھ انضمام کا فیصلہ کر لیا تھا۔
نوبھارت ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق،’نظام نے فیصلہ کیا کہ ان کی ریاست نہ تو پاکستان کا حصہ بنے گی اور نہ ہی ہندوستان میں شامل ہوگی۔ ہندوستان چھوڑتے وقت انگریزوں نے حیدرآباد کے نظام کو پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کی تجویز پیش کی تھی۔ انگریزوں نے حیدرآباد کو ایک آزاد ریاست قائم رہنے کی بھی تجویز دی تھی۔ حیدرآباد میں نظام اور فوج میں اعلیٰ عہدے پر مسلمان تھے لیکن آبادی کی اکثریت ہندو (85%)تھی۔ شروع میں نظام نے برطانوی حکومت پر اپیل کی کہ وہ حیدرآباد کو دولت مشترکہ کے تحت ایک آزاد شاہی ریاست کا درجہ عطا کرے۔ حالانکہ انگریزوں نے نظام کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا‘۔
بی بی سی ہندی نے کے ایم منشی کی کتاب ’اینڈ آف این ایرا‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نظام نے جناح کو آزاد رہنے کے لیے پیغام بھیج کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا وہ ہندوستان کے خلاف جنگ میں حیدرآباد کی حمایت کریں گے؟
بی بی سی ہندی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے،’کلدیپ نیّر نے خود نوشت ’بیونڈ دی لائنس‘ میں لکھا ہے کہ جناح نے جواب میں کہا تھا کہ وہ مٹھی بھر اشرافیہ (ایلیٹ لوگوں) کے لیے پاکستان کے وجود کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیں گے‘۔
پاکستان پرتگال کے ساتھ حیدرآباد کا معاہدہ کروانے کے فراق میں تھا، جس کے تحت حیدرآباد گوا میں ایک بندرگاہ بنوائے گا اور ضرورت پڑنے پر وہ اسے استعمال کرے گا۔ حیدرآباد کے نظام اپنے ایک آئینی مشیر سر والٹر مونکٹن کے ذریعے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے براہ راست رابطہ میں تھے۔ مونکٹن کے کنزرویٹو پارٹی سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
آج تک کی رپورٹ کے مطابق حیدرآباد نے چیکوسلواکیہ کو 30 لاکھ پاؤنڈ اسلحے کا آرڈر دیا تھا اور امریکی صدر سے ثالثی کی اپیل کی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔
نوبھارت ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق اس وقت کے ہندوستان کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے حیدرآباد کے نظام سے براہ راست ہندوستان میں انضمام کی گذارش کی۔ لیکن نظام نے پٹیل کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے 15 اگست 1947 کو حیدرآباد کو ایک آزاد ملک قرار دے دیا۔
نظام کے اس اقدام سے پٹیل چونک گئے اور انہوں نے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے رابطہ کیا۔ ماؤنٹ بیٹن نے پٹیل کو مشورہ دیا کہ ہندوستان کو طاقت کا استعمال کیے بغیر اس چیلنج سے نمٹنا چاہیے۔ نہرو، ماؤنٹ بیٹن کے اس مشورے کو سنجیدگی سے لینے کے حق میں تھے کہ پورے معاملے کو پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ سردار پٹیل نہرو کے اندازے سے متفق نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس وقت کا حیدرآباد ’ہندوستان کے پیٹ کے کینسر کی طرح‘ ہے، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ کے مطابق بالآخر 9 ستمبر 1948 کو بھارت نے فیصلہ کیا کہ حیدرآباد میں فوجی کارروائی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ فوج کی جنوبی کمان کو مطلع کیا گیا کہ اسے 13 ستمبر (پیر) کی صبح حیدرآباد میں داخل ہونا ہے۔ بھارتی فوج کی اس کارروائی کو آپریشن پولو کا نام دیا گیا کیونکہ اس وقت حیدرآباد میں دنیا کے سب سے زیادہ پولو گراؤنڈز تھے، جن کی تعداد 17 تھی۔ بھارتی فوج کی قیادت میجر جنرل جے این چودھری کر رہے تھے۔ ہندوستانی فوج کو پہلے اور دوسرے دن قدرے مزاحمت کا سامنا رہا اور پھر حریف فوج نے شکست تسلیم کر لی۔ 17 ستمبر کی شام کو حیدرآباد کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ پانچ روز تک جاری رہنے والی کارروائی میں 1373 رضاکار مارے گئے۔ حیدرآباد کے 807 فوجی بھی مارے گئے۔ بھارتی فوج نے اپنے 66 فوجیوں کو کھو دیا جب کہ 97 فوجی زخمی ہوئے۔
نتیجہ
DFRAC ڈیسک کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ یہ دعویٰ کہ سردار پٹیل نے مان سنگھ دوئم سے مدد مانگی تھی اور نظام نے جے پور کے رام باغ پیلیس میں جان کی امان کے لیے منہ میں گھاس لےکر معافی مانگی تھی، بے تناظر (سیاق و سباق سے منقطع)، فرضی اور گمراہ کن ہےکیونکہ سردار پٹیل نے مذاکرے کے توسط سے حیدرآباد کا انضمام بھارت میں کرنے کی کوشش کی۔ جب نظام نے حیدرآباد کو ایک آزاد ملک قرار دیا تو پٹیل نے ماؤنٹ بیٹن سے رابطہ کیا تھا۔ پھر فوجی کارروائی کے ذریعے حیدرآباد کو ہندوستان میں ضم کر لیا گیا۔ اس پورے واقعے میں ریاست جے پور کے مان سنگھ دوئم کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں ہے۔
دعویٰ: سردار پٹیل نے مان سنگھ دوئم سے مدد مانگی تھی اور جے پور کے رام باغ پیلیس میں نظام نے منہ میں گھاس لےکر جاں بخشی کے لیے مانگی تھی معافی
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: فیک اور گمراہ کن