سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک لڑکی بیان کر رہی ہے کہ وہ ایک مسلم محلے میں رہتی ہے، اس لیے اسے ہندو ہونے کی وجہ سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ لڑکی مزید کہتی ہے کہ لوکل لیڈر کے دباؤ پر بی ایم سی (بامبے میونسپل کارپوریشن) نے زبردستی اس کا گھر خالی کروا دیا اور اسے سیل کر دیا
اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ایک یوزر نے لکھا،’جنوبی ممبئی کے بھنڈی بازار کے پاس رہنے والی کرشنا ساریکا کو مسلمانوں نے زبردستی ان کے گھر سے نکال دیا ہے۔ امید ہے @CMOMaharashtra، جناب @mieknathshinde جو ضروری ہے، وہ کریں گے۔ امید ہے کہ ممبئی میوات نہ بنے‘۔
وہیں اس معاملے پر کرشنا ساریکا نام کے اکاؤنٹ سے کئی ٹویٹ کیے ہیں۔
فیکٹ چیک:
وائرل ہو رہے اس ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے سوشل میڈیا کو کھنگالنا شروع کیا۔ ہمیں صحافی دنیشن موریا کا ایک ٹویٹ ملا۔ دنیش کے ٹویٹ کے مطابق کرشنا ساریکا پر بی ایم سی نے کاروائی کی ہے۔ دنیش نے ممبئی پولیس کے حوالے سے بتایا کہ کرشنا کے دادا اور والد بی ایم سی میں کام کرتے تھے۔ والد 2009 میں ریٹائر ہو گئے۔ ایسے میں بی ایم سی نے جو گھر الاٹ کیا تھا‘ اسے ضابطے کے تحت خالی کرنا تھا لیکن اہل خانہ نےگھر خالی نہیں کیا۔ اتنے برسوں میں بی ایم سی کا بقایا بڑھ کر 41 لاکھ روپیے ہو گیا۔
دنیش کے مطابق جب خاندان نے بی ایم سی کے 41 لاکھ نہیں ادا کیے تو بی ایم سی نے پہلے ضابطے کے مطابق نوٹس جاری کیا اور پھر مکان خالی کرایا۔ پولیس، ویڈیو میں جھوٹا دعویٰ کرنے والی لڑکی اور اس ویڈیو کو ٹویٹ کرنے والے شخص کو نوٹس جاری کرے گی۔
جب DFRAC فیکٹ چیک ڈیسک نے کرشنا ساریکا کے ٹویٹس کو چیک کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے پرانے ٹویٹس میں کسی مسلم اینگل سے کوئی ٹویٹ نہیں کیا ہے۔ تاہم، انہوں نے غنڈوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کا الزامات ضرور لگائے ہیں۔
نتیجہ:
وائرل ہورہے ویڈیو کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ بی ایم سی نے اس معاملے میں کارروائی کی ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے الزامات اور بی ایم سی کی طرف سے مسلمانوں کے دباؤ میں کارروائی کے الزامات فرضی ہیں۔
دعویٰ:مسلمانوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے بعد بی ایم سی نے ہندو خاندان کا گھر خالی کروایا
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک : فیک