غزہ کے شمالی، وسطی و جنوبی علاقوں میں اسرائیل کی شدید بمباری جاری ہے جن میں لاکھوں لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کا کام دینے والے سکولوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے بتایا ہے کہ گزشتہ چار روز میں چار سکولوں پر بمباری کی گئی ہے۔ نو ماہ سے جاری جنگ میں ‘انرا’ کے دو تہائی سکولوں پر حملے ہو چکے ہیں جن میں بعض مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ بقیہ کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
#Gaza
— Philippe Lazzarini (@UNLazzarini) July 10, 2024
4 schools hit in the last 4 days.
Since the war began, two thirds of @UNRWA schools in Gaza have been hit, some were bombed out, many severely damaged.
Schools have gone from safe places of #education & hope for children to overcrowded shelters and often ending up a…
اسرائیل کی فوج نے اپنے اقدامات کا جواز فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ شہر میں دہشت گردوں کے لیے کام کرنے والوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
پناہ گاہوں میں ہلاکتیں
منگل کو جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے والے ایک سکول کے قریب اسرائیل کی بمباری میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہو گئے۔
غزہ کے طبی حکام کے مطابق نصیرت کیمپ میں ایک سکول پر ایسے ہی ایک اور حملے میں 16 ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک حملہ غزہ شہر میں ایک سکول پر بھی کیا گیا جس میں سیکڑوں افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔
ادارے کی ڈائریکٹر اطلاعات جولیٹ توما نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ سوموار کو نصیرت کیمپ میں یا اس کے قریب ‘انرا’ کے ایک اور سکول پر حملے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘انرا’ کے سکولوں پر حملے عام ہو گئے ہیں اور ہر مرتبہ ایسے حملے میں بچوں اور خواتین سمیت درجنوں لوگ مارے جاتے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو یہ جنگ شروع ہونے کے بعد ‘انرا’ نے علاقے میں تمام سکول بند کر دیے تھے جو جلد ہی پناہ گاہوں میں تبدیل ہو گئے اور تقریباً 6 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ گزشتہ نو ماہ میں ایک وقت میں ان سکولوں میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی۔
لاکھوں بچوں کی تعلیم معطل
جولیٹ توما نے کہا ہے کہ اگر یہ جنگ مزید جاری رہی تو بچوں کی ایک پوری نسل تعلیم سے محروم ہو جائے گی۔ بچے جس قدر طویل عرصہ تک سکولوں سے باہر رہیں گے ان کے لیے تعلیمی نقصان کو پورا کرنا اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ اس طرح ان کے استحصال کا شکار ہونے بشمول بچہ مزدوری، نوعمری کی شادی اور مسلح گروہوں میں بھرتی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اسی لیے کم از کم ان بچوں کی خاطر جنگ بندی ضروری ہے۔
اسرائیل کے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مراکز کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے اسرائیل کے الزامات سنگین ہیں جن کی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔
سکولوں، پناہ گاہوں اور طبی مراکز جیسی شہری تنصیبات کو جنگ سمیت ہر طرح کے حالات میں تحفظ ملنا چاہیے۔
امداد کی عدم رسائی
‘یو این ایف پی اے’ نے بتایا ہے کہ ضرورت مند لوگوں تک انسانی امداد کی فراہمی میں سنگین رکاوٹیں حائل ہیں۔ غزہ میں آمد کے راستے بند ہیں اور اسرائیلی فوج کی جانب سے ضابطے کی کڑی کارروائیوں کے باعث امداد کی رسائی مشکلات سے دوچار ہے۔
غزہ میں نظم و نسق کے خاتمے کے باعث چوری چکاری اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے امدادی کارکنوں اور ان کے کام کو خطرات لاحق ہیں۔
معالجین نے بتایا ہے کہ حاملہ خواتین کو درپیش شدید غذائی قلت، ذہنی دباؤ اور خوف کے باعث بچوں کی قبل از وقت اور کمزور حالت میں پیدائش کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خواتین اور بالغ لڑکیوں کے صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے کی شرح بھی بڑھ رہی ہے اور خاص طور پر بے گھر، بیوہ یا بے سہارا خواتین کے لیے یہ خطرات اور بھی زیادہ ہیں۔
بڑھتا انسانی نقصان
جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں انسانی حالات بدترین صورت اختیار کر رہے جہاں لوگوں کو درپیش شدید تکالیف اب معمول کی بات بن گئی ہے۔
ادارے نے غزہ کے طبی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں اب تک 38 ہزار فلسطینی ہلاک اور 87 ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں جبکہ خوراک، پناہ، طبی سہولیات اور روزگار کا شدید فقدان ہے۔
نو ماہ سے جاری جنگ میں 19 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں اسرائیلی فوج کے احکامات پر کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ یہ لوگ گنجائش سے زیادہ گنجان خیمہ بستیوں میں یا سڑکوں پر پناہ گزین ہیں جنہیں بنیادی ضرورت کی اشیا میسر نہیں۔ لوگوں میں بڑے پیمانے پر ناامیدی پائی جاتی ہے اور انہیں جنگ ختم ہونے یا اپنے گھروں کو واپسی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
خواتین کے لیے مددگار اقدامات
‘یو این ایف پی اے’ مشکلات کے باوجود غزہ اور مغربی کنارے میں جنسی و تولیدی صحت کے لیے درکار ضروری چیزیں اور صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف خدمات مہیا کر رہا ہے۔
ادارے اور اس کے شراکت داروں نے ہنگامی حالات میں بچوں کو جنم دینے والی ماؤں کے لیے دو طبی مراکز بھی قائم کیے ہیں۔ علاوہ ازیں ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کو ایام حیض میں صحت و صفائی برقرار رکھنے کا سامنا مہیا کیا گیا ہے جبکہ غزہ میں قائم پناہ گاہوں میں جنسی و تولیدی طبی خدمات مہیا کرنے والی ٹیموں کی تعیناتی بھی عمل میں آئی ہے۔