اقوام متحدہ کے امدادی حکام نے کہا ہے کہ نو ماہ سے جاری جنگ میں غزہ تباہی کا گڑھ بن گیا ہے جہاں بارہا نقل مکانی کرنے والے لوگ شدید خوف اور مایوسی کا شکار ہیں۔
حالیہ دنوں غزہ کا دورہ کرنے والے حکام نے بتایا ہے کہ علاقے میں 20 لاکھ لوگ غذائی تحفظ، پناہ، صحت اور روزگار سے محروم ہیں۔ حالات اس قدر ابتر ہیں کہ حاملہ مائیں معالجین سے قبل از وقت آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے بچوں کو جنم دینے پر اصرار کر رہی ہیں۔
In #Gaza, over 76% of schools need reconstructing or require major rehabilitation to be functional again, according to @GlobalEdCluster.
— UNRWA (@UNRWA) June 21, 2024
Despite this, @UNRWA teams continue to reach children with play & learning activities.
Education is a fundamental human right.#CeasefireNow pic.twitter.com/G0cWR9NWDw
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے ‘یو این ویمن‘ کی خصوصی نمائندہ میرسے گوئمنڈ نے بتایا ہے کہ خواتین ان سے پوچھتی ہیں کہ وہ کب اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گی؟ علاقے میں ہر فرد کی نقل مکانی اپنے ساتھ مزید نقصان اور خوف لا رہی ہے۔
صحت کے مخدوش حالات
میرسے گوئمنڈ نے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی بڑی تعداد نے چھوٹے سے علاقوں میں قائم عارضی خیمہ بستیوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے ایک سکول میں پناہ لیے 14 ہزار لوگوں کے لیے صرف 25 بیت الخلا ہیں جبکہ سکول کے گردونواح میں بھی 59 ہزار لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے انتہائی مخدوش طبی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ معالجین اور طبی کارکن کو نو ماہ پہلے کے مقابلے میں کہیں بڑی تعداد میں بچوں کی قبل از وقت پیدائش کے مسئلے سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔
حاملہ خواتین کا المیہ
پیپرکورن کا کہنا ہے کہ جنگوں کے دوران کمزور اور قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے لیکن غزہ میں حاملہ خواتین خود معالجین سے درخواست کر رہی ہیں کہ انہیں بچوں کی قبل از وقت پیدائش میں مدد دی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ آنے والے دنوں میں وہ اِس وقت دستیاب معمولی سی طبی مدد بھی حاصل کر پائیں گی یا نہیں۔
انہوں نے بتایا ہے کہ غزہ میں زچہ بچہ کی برائے نام نگہداشت ہی میسر ہے۔ علاقے میں بہت بڑی تعداد میں زخمیوں، معذوروں اور بیمار افراد کی موجودگی کے باعث حاملہ خواتین کو خاطرخواہ طبی توجہ نہیں مل رہی۔
طبی بنیادوں پر انخلا
7 اکتوبر کو یہ جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک 4,800 مریضوں اور زخمیوں کو ہی علاج معالجے کے لیے غزہ سے باہر بھیجا جا سکا ہے۔ ان میں بیشتر لوگ مصر میں لائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر پیپرکورن نے کہا ہے کہ اس وقت مزید 10 ہزار افراد کو غزہ سے باہر خصوصی طبی مدد درکار ہے۔ ان میں تقریباً نصف لوگ وہ ہیں جو جنگ میں شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ بقیہ نصف سرطان، امراض قلب، غیرمتعدی بیماریوں اور ذہنی امراض کا شکار ہیں۔
انہوں نے مصر کے ساتھ رفح کے سرحدی راستے کو فوری کھولنے یا اسرائیل کے ساتھ کیریم شالوم کے راستے شدید زخمیوں اور مریضوں کو علاج کی غرض سے انخلا کی سہولت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
امدادی کارکنوں کی مشکل
‘ڈبلیو ایچ او’ کے ڈاکٹر تھامس گارگاوانز نے کہا ہےکہ رفح کی سرحد بند ہونے، لڑائی میں ںشدت آنے اور متواتر نقل مکانی کے باعث امدادی اداروں کے لیے اپنا کام کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
ہر ایک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی امدادی کارکنوں کے لیے غزہ میں داخلے کا عمل بہت طویل اور خطرات سے بھرپورہے اور اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہے۔
فی الوقت امدادی کارکن کیریم شالوم کے راستے غزہ میں آ رہے ہیں اور انہیں اپنی بکتر بند گاڑیاں بھی خود چلانا پڑتی ہیں تاکہ عالمی امدادی برادری غزہ میں بحفاظت اپنا کام کرتی رہے۔
جنگ میں ‘بے اثر’ وقفہ
‘ڈبلیو ایچ او’ نے اسرائیلی فوج کے ان دعووں کو رد کیا ہے کہ جنگ میں حالیہ وقفوں سے علاقے میں امداد کی فراہمی بہتر ہو گئی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ان جنگی وقفوں کا عملی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب یہ کہا جائے کہ لڑائی میں وقفے سے کیریم شالوم کی سرحد سے امداد لانا اور اسے لوگوں کو مہیا کرنا آسان ہو گیا ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے انہی خدشات کو دہراتے ہوئے اسرائیل سے کہا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت قابض طاقت کی حیثیت سے لوگوں کو انسانی امداد اور ایندھن کی فراہمی یقینی بنانا اس کی ذمہ داری ہے۔ علاوہ ازیں، اسے علاقے میں نظم و نسق بھی قائم رکھنا ہو گا اور ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ مایوس لوگ امدادی سامان کی لوٹ مار سے گریز کریں۔
‘اوچا’ کے ترجمان جینز لائرکے نے بتایا ہے کہ انسانی امداد کی محفوظ و مربوط نقل و حمل کے لیے امدادی اداروں اور اسرائیل کے حکام میں اتفاق رائے ہوا ہے۔ تاہم عملی طور پر اس ضمن میں ہونے والے اقدامات برائے نام ہیں۔