بریانی اور حلال کے حوالے سے سوشل میڈیا سائٹس پر ایک طویل پوسٹ لکھ کر یوزسس دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایک عدالتی کیس میں مسلمانوں نے بتایا کہ حلال کا معنیٰ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک باورچی اس میں تھوک نہ دے۔
یوزرس، دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمل ناڈو اور کیرالا میں کئی مقامات پر حلال کے اسٹیکراور بورڈ ہٹا دیے گئے ہیں۔ ہندو، بریانی سے بیزار ہو گئے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے ڈھابوں پر لوگوں کا ہجوم کم ہو گیا ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اب غور و خوض کرنا ہوگا کہ وہ کس قسم کا کھانا پسند کرتے ہیں۔ تھوکنے کا مسئلہ اس تنازعہ کا مرکز بن کر اب ایک سماجی مسئلہ بن گیا ہے۔
جتیندر ای سی آئی نامی یوزر نے مذکورہ دعویٰ 288 لفظوں میں پوسٹ لکھ کر کیا ہے۔ X پر جتیندر کے اس پوسٹ کو 400 سے زیادہ ری پوسٹ اور 6000 سے زیادہ لائک ملے ہیں، جبکہ اسے 2.20 لاکھ سے زیادہ ویوز مل چکے ہیں۔
Tweet Archive Link
وکاس پرتاپ سنگھ راٹھور نامی یوزر کیسریا راشٹروادی ٹیم (KRT) کی ایک پوسٹ کو رپلائی کرکے مذکورہ بالا دعویٰ کیا ہے، جس میں KRT نے ہر سطح پر مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔
سوشل میڈیا پر دیگر یوزرس بھی ایسا ہی دعویٰ کر رہے ہیں کہ حلال کا مطلب تھوکنا ہوتا ہے۔
Tweet Archive Link
Tweet Archive Link
Tweet Archive Link
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC کی ٹیم نے کچھ کی-ورڈ کی مدد سے گوگل پر اس تناظر میں سرچ کیا۔ اس دوران پتہ چلا کہ وائرل دعوے میں جس کیس کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ 2021 کا ہے اور یہ تمل ناڈو کا نہیں بلکہ کیرالا ہائی کورٹ کا ہے۔
DFRAC ٹیم نے پایا کہ ایسا کوئی اعتراف کسی مسلم تنظیم یا فرد نے نہیں کیا ہے۔ دراصل، یہ کیرالا میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے سابق صدر ایس جے آر کمار کی طرف سے سبریمالا مندر کا انتظام و انصرام کنندہ تراوانکور دیواسووم بورڈ (ٹی بی ڈی) کے خلاف دائر عرضی کا ایک اقتباس ہے۔
بورڈ کے خلاف کمار کی عرضی میں بھکتوں کو پرساد (شیرینی) میں خراب گُڑ (شوگر) کے استعمال کے لیے بورڈ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا اور ہندو مندر میں حلال سے تصدیق شدہ گُڑ کے استعمال پر اعتراض کیا تھا۔
ہمیں ویب سائٹ verdictum.in پر اپ لوڈ شنوائی کی ایک ٹیسٹ کاپی ملی، جس میں متذکرہ دعویٰ پڑھا جا سکتا ہے۔
یہاں، ہمیں معلوم ہوا کہ مذکورہ دعویٰ، عرضی گذار ایس جے آر کمار کے بیان کا اقتباس ہے نہ کہ کسی مسلم تنظیم یا فرد کی طرف سے عدالت میں دی گئی دلیل۔
کمار فی الحال سبریمالا کرم سمیتی کے جنرل کنوینر کے عہدے پر فائز ہیں، جو کیرالا کے سبریمالا مندر میں رسم و رواج کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ایک تنظیم ہے۔ کمار ایک دہائی سے ہندو تنظیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
عرضی کے مطابق، خراب گُڑ ممکنہ طور پر بھکتوں کی صحت کو خراب کر سکتا ہے، جبکہ ’حلال گُڑ‘ پرساد (شیرینی) تیار کرنے کے لیے نا مناسب ہے کیونکہ استعمال ہونے والے اجزاء کو ہندو طریقوں کے مطابق بنایا جانا چاہیے، جو کہ حلال نہیں ہے۔
نیوز منٹ کی رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ نے حلال کے بارے میں کمار کی سمجھ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ حلال تصدیق شدہ مصنوعات کے استعمال کو چیلنج کرنے سے پہلے انھیں ’اس (حلال کے) تصور کی گہرائی میں جانا چاہیے تھا‘۔
جسٹس پی جی اجیت کمار اور انل کے نریندرن کی ڈویژن بنچ اس عرضی کی سماعت کر رہی تھی، اور اس معاملے پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے مزید تفصیلی سماعت کی ضرورت بتائی تھی۔
کیا ہے حلال کا مطلب؟
عربی میں لفظ ’حلال‘ کا مطلب ہے ’جائز‘ یا ’قانونی‘۔ حلال فوڈ کے احکام، اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید میں مذکور ہیں اور احادیث میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
اسلام میں کچھ چیزیں سختی سے ممنوع ہیں، جیسے سور کا گوشت اور اس کی ضمنی مصنوعات، خون اور شراب۔
حلال گوشت کے لیے جانور کو تیز دھار چھری سے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جانا چاہیے، اسے ذبیحہ کہتے ہیں۔
حلال کھانا تیار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے برتن اور سامان غیر حلال اشیاء کے رابطے میں نہیں آنے چاہیئیں۔
حلال فوڈ میں اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ کھانا پکانے کے عمل کے دوران کوئی حرام اجزاء، جیسے شراب یا سور کا گوشت شامل نہ ہو۔ حلال فوڈ مسلمانوں کے علاوہ مختلف ثقافتی پس منظر کے لوگ بھی کھاتے ہیں۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ سوشل میڈیا یوزرس کا یہ دعویٰ گمراہ کُن ہے کہ مسلمانوں نے تمل ناڈو کی ایک عدالت میں دلیل دی کہ حلال کا مطلب اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک باورچی اس میں تھوک نہ دے، کیونکہ یہ دعویٰ کیرالا میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے سابق صدر ایس جے آر کمار نے اپنی عرضی میں کیا تھا۔