ہندوستان کے سماجی تناظر میں چھواچھوت اور ذات پات کے نظام کے بارے میں بہت کچھ پایا جاتا ہے کہ کس طرح پیدائش کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تفریق و امتیاز سے پُر، ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ زبان اور بولی میں بھی یہ بات صاف نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس پر یوزرس کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چھواچھوت اور ذات پات کے نظام کی ابتدا مغل اور برطانوی دور میں ہوئی تھی۔
اَیتیہاسِک تَتھیہ نامی یوزر نے فیس بک پر تقریباً 700 لفظوں میں ایک لمبی-چوڑی پوسٹ لکھی ہے۔ اس پوسٹ میں اَیتیہاسِک تَتھیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ”مغل دور سے ہی ملک میں گندگی شروع ہو گئی اور پردہ نظام، غلامی کی روایت، بال وِواہ (بچپن میں شادیاں)جیسی چیزیں شروع ہوتی ہیں۔ 1800-1947 تک انگریزوں کی حکومت رہی اور یہیں سے ذات پات کا نظام شروع ہوا۔ جو انہوں نے ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی کے تحت کیا‘۔
اس پوسٹ کو 53 ہزار سے زائد افراد نے لائک کیا ہے، 33 ہزار یوزرس نے اسے شیئر کیا ہے جبکہ 6.6 ہزار سے زائد تک کمنٹ ہیں۔
فیکٹ چیک
چھواچھوت اور ذات پات کا نظام، مغلوں اور انگریزوں کے دورِ حکومت میں شروع ہوا، اس دعوےکی جانچ-پڑتال کرنے کے لیے ہم نے انٹرنیٹ پر کچھ خاص کی-ورڈ کی مدد سے ایک سمپل سرچ کیا۔ہمیں مختلف ذرائع سے بہت سے مضامین اور رپورٹ ملے۔ ویب سائٹ yourarticlelibrary.com پر پبلش ایک رپورٹ بتایا گیا ہے کہ چھواچھوت کے آغاز کا پتہ اس وقت سے لگایا جا سکتا ہے جب 1500 قبل مسیح کے قریب آریوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا۔ وہ مقامی لوگوں کو ثقافتی اور نسلی اعتبار سے کمتر سمجھتے تھے، جبکہ کچھ مقامی لوگ جنگلوں میں بھاگ گئے، باقی افراد کو محکوم بنا کر آریہ سماج میں نچلی ذات کے طور پر شامل کر لیا گیا۔
وہیں گوگل پر untouchability کا لفظ لکھ کر ایک سمپل سرچ کرنے پر ہم نے پایا کہ untouchability wikipedia پیج میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر، رائٹنگس اینڈ اسپیچیز، ویلیوم 7 کے حوالے سے لکھا گیا ہےکہ چھواچھوت کی ابتدا اور اس کی تاریخ پر ابھی تک بحث جاری ہے۔ بی آر امبیڈکر کا خیال تھا کہ چھواچھوت کم از کم 400 قبل مسیح سے موجود ہے۔
باباصاحب امبیڈکر خود چھواچھوت اور ذات پات کے نظام کے جبر کا شکار تھے۔ انہوں نے ذات پات کے خاتمے کی تقریر میں لکھا ہے کہ مراٹھا ریاست میں اگر پیشواؤں کے دور میں کوئی ہندو سڑک پر آ رہا ہوتا تھا تو کسی اچھوت کو اس لیے اس سڑک پر چلنے کی اجازت نہیں تھی کہ اس کے سائے سے وہ ہندو ناپاک ہو جائے گا۔ اچھوت کے لیے یہ لازمی تھا کہ وہ اپنی کلائی یا گلے میں ایک نشانی کے طور پر کالا دھاگہ باندھے، جس سے کہ ہندو اسے غلطی سے چھوکر نجس ہونے سے بچ جائے۔ پیشواؤں کی راجدھانی پونے میں ایک اچھوت کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی کمر میں جھاڑو باندھ کر چلے تاکہ اس کے پیچھے کی دھول اس کے چلنے سے صاف ہوتی رہے اور ایسا نہ ہو کہ اس راستے پر چلنے والا کوئی ہندو اس سے ناپاک ہو جائے۔ پونے میں اچھوتوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ مٹی کا برتن اپنی گردن میں لٹکا کر چلیں کیونکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں زمین پر پڑنے والے اس کے تھوک سے انجانے میں وہاں سے گذرنے والا کوئی ہندو ناپاک ہو جائے۔ (ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر، رائیٹِنگس اینڈ اسپیچیز، ویلیوم 1 پیج، 45-46)
ہندو ورن نظام کا ذکر کھلے طور پر منسو اسمرتی میں کیا گیا ہے، جس کے مطابق پہلے برہمن اور پھر کھشتری (چھتریہ)، ویشیہ اور شودر ہیں۔
بی بی سی کی جانب سے پبلش ایک رپورٹ میں مورخ نراہر کروندرکر کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ- ’اس (منوسمرتی) کتاب کی تصنیف عیسیٰ مسیحؑ کی پیدائش سے دو تین سو سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ پہلا باب فطرت کی تخلیق، چار ادوار کا احاطہ کرتا ہے۔ چار ورن، ان کے پیشے، برہمنوں کی عظمت جیسے موضوعات شامل ہیں‘۔
نتیجہ
DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اَیتیہاسِک تَتھیہ کی جانب سےکیا گیا یہ دعویٰ کہ چھواچھوت اور ذات پات کے نظام کی ابتدا مغل اور انگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی، بے بنیاد، گمراہ کن اور فیک ہے کیونکہ مغلوں اور انگریزوں کی حکومت سے بھی پہلے چھواچھوت اور ذات پات کا نظام ہزاروں سال سے ہندوستان میں موجود تھا۔
دعویٰ: چھواچھوت اور ذات پات کا نظام مغل اور برطانوی دور حکومت میں شروع ہوا
دعویٰ کنندگان: اَیتیہاسِک تَتھیہ و دیگر سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن اور فیک