- UN News
اقوام متحدہ کی امدادی ٹیمیں غزہ میں لوگوں کو ہنگامی بنیاد پر ہرممکن مدد پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ایندھن کی شدید قلت کے باعث پانی صاف کرنے کے پلانٹ چالو رکھنے اور طبی سہولیات کی فراہمی سمیت بہت سی خدمات بند ہونے کا خدشہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ علاقے میں طبی ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ادویات اور علاج معالجے کا سامان مہیا ہونا ضروری ہے۔ طبی کارکنوں نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز شمالی غزہ میں سرحدی راستے زکم پر خوراک کے انتظار میں کھڑے کم از کم 50 افراد ہلاک اور 400 زخمی ہو گئے ہیں۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی عہدیدار اولگا چیریکوو نے بتایا ہے کہ آج صبح کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے آنے والے ان کے امدادی مشن کو راستے میں اسرائیلی فوج نے دو گھنٹے روکے رکھا۔ امدادی قافلوں کو اس طرح روکا جانا معمول ہے جس کے باعث ضرورت مند لوگ بروقت مدد حاصل نہیں کر پاتے۔ بھوک سے ستائے بہت سے لوگ امدادی سامان لانے والے ٹرکوں کے انتظار میں راستوں پر کھڑے رہتے ہیں۔
بھوک، غذائی قلت اور مایوسی
غزہ سے موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مائیں بھوکی ہونے کے باعث اپنے چھوٹے بچوں کو دودھ پلانے کے قابل نہیں ہیں۔ ان حالات میں وہ بچوں کو مٹر کے دانے، روٹی اور چاول کھلانے پر مجبور ہیں جو ان کے لیے موزوں خوراک نہیں ہے۔
اولگا چیریکوو ںے بتایا کہ گزشتہ دنوں امدادی قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہوئے انہیں سڑک کنارے ایک معمر شخص دکھائی دیا جو زمین پر بکھری مٹھی بھر دال اکٹھی کر رہا تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو خوراک کی کس قدر قلت کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد فراہم کر کے موجودہ حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
عارضی جنگ بندی ناکافی
اولگا چیریکوو نے کہا ہے کہ اگرچہ گزشتہ دنوں ایندھن کی کچھ مقدار غزہ میں لائی گئی ہے لیکن یہ ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ علاقے میں روزانہ ہزاروں لٹر ایندھن کی ضرورت ہے تاکہ پانی، نکاسی آب، صحت، ہنگامی رابطوں اور دیگر سہولیات کی فراہمی کو برقرار رکھا جا سکے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے اسرائیل کی جانب سے عسکری کارروائیوں میں روزانہ وقفہ دیے جانے کے بعد امدادی کارروائیوں کی رفتار میں قدرے تیزی آئی ہے۔ علاوہ ازیں، اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں پر شہریوں کی لوٹ مار کے واقعات بھی پہلے سے کچھ کم ہو گئے ہیں۔
‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ جنگ میں وقفوں کے اعلان سے چار روز بعد بھی امداد کے حصول کی کوشش کرنے والوں کی ہلاکتیں جاری ہیں جبکہ بھوک اور غذائی قلت سے ہونے والی اموات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے عارضی یکطرفہ وقفوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر امداد فراہم کرنے کے لیے مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے۔

