
© WHO غزہ میں لوگ خوراک کی تقسیم کے ایک مرکز کے باہر اکٹھے ہیں (فائل فوٹو)۔
ادارے کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کی ترسیل روکے جانے سے علاقے میں بھوک کا شدید بحران جنم لے سکتا ہے۔ حالیہ دنوں خوراک، ادویات، پانی اور ایندھن کی فراہمی بند کا عرصہ جنگ کے پہلے مرحلے میں غزہ کے محاصرے سے بھی زیادہ طویل ہو گیا ہے۔
غزہ کے لوگوں کی بقا کا انحصار اسرائیل کے راستے امداد اور تجارتی سامان کی آمد پر ہے۔ موجودہ حالات میں روزانہ پہلے سے سے زیادہ بچے بھوکے سوتے ہیں، علاقے میں بیماریاں پھیل رہی ہیں اور محرومی شدت اختیار کر رہی ہے۔
محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ
غزہ میں 18 جنوری سے شروع ہونے والی جنگ بندی 42 روز برقرار رہی۔ اس دوران حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں نے متعدد یرغمالیوں کو رہا کیا جبکہ اسرائیلی قید خانوں سے سیکڑوں فلسطینیوں کی رہائی بھی عمل میں آئی۔ تاہم چند روز سے اسرائیل نے غزہ پر ایک مرتبہ پھر فضائی اور زمینی حملے شروع کر رکھے ہیں جن میں بچوں اور خواتین سمیت سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
غزہ میں ‘انروا‘ کی قائمقام ڈائریکٹر سیم روز خبردار کر چکی ہیں کہ اگر جنگ بندی بحال نہ ہوئی تو علاقے میں بڑے پیمانے پر زندگیوں، تنصیبات اور املاک کا نقصان ہو گا، متعدی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھ جائے گا اور غزہ کی 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کو جسمانی و ذہنی نقصان پہنچے گا جس میں 10 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔
فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ امداد کی فراہمی پر پابندی سے بچے، خواتین اور معمر افراد بری طرح متاثر ہوں گے۔ اسرائیل غزہ کا محاصرہ ختم کرے، حماس باقیماندہ یرغمالیوں کو بلاتاخیر رہا کرے اور علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی بلاروک و ٹوک فراہمی یقینی بنائی جائے۔