اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ غزہ میں ہسپتالوں کے قریب اسرائیل کے مہلک حملوں اور لڑائی کے نتیجے میں طبی نظام تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ہے جس سے فلسطینیوں کی طبی خدمات تک رسائی خطرناک طور سے متاثر ہو گی۔
‘او ایچ سی ایچ آر’ کی جاری کردہ رپورٹ میں 12 اکتوبر 2023 اور 30 جون 2024 کے درمیانی عرصہ میں ہونے والے حملوں کے تناظر میں بین الاقوامی قانون کی تعمیل سے متعلق اسرائیل کے طرزعمل پر کڑی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت طبی عملے اور ہسپتالوں کو جنگی کارروائیوں سے خصوصی تحفظ دینا لازمی ہے۔
Catastrophic effects of #Israel's pattern of attacks on & around #Gaza's hospitals, some of which may amount to war crimes, documented in @UNHumanRights report.
— UN Human Rights (@UNHumanRights) December 31, 2024
There must be full accountability for all violations that have taken place.
قوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کا کہنا ہے کہ ہسپتال وہ واحد جگہ تھے جہاں لوگوں کو کسی قدر تحفظ ملنے کی امید تھی لیکن غزہ میں یہ جگہیں بھی ان کے لیے موت کا پھندا ثابت ہوئی ہیں۔
یہ رپورٹ ایسے موقع پر جاری ہوئی ہے جب شمالی غزہ میں کمال عدوان ہسپتال غیرفعال ہو گیا ہے جو اس علاقے میں آخری بڑا طبی مرکز تھا۔ موجودہ حالات میں علاقے کی آبادی کو طبی نگہداشت تک خاطرخواہ رسائی نہیں رہی۔ کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر سمیت وہاں سے انخلا کرنے والے طبی عملے اور متعدد مریضوں کو اسرائیل کی فوج نے حراست میں لے لیا ہے۔
انسانیت کے خلاف اور جنگی جرائم
رپورٹ کے لیے زیرجائزہ رہنے والے عرصہ میں کم از کم 27 ہسپتالوں اور 12 دیگر طبی سہولیات پر کم از کم 136 حملے ہوئے جن میں ڈاکٹروں، نرسوں، معاون طبی عملے کے ارکان اور عام شہریوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی اور عمارتوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے حالات میں جب طبی عملے، ایمبولینس گاڑیوں اور ہسپتالوں کو حاصل خصوصی تحفظ برقرار نہ رہے اور انہیں عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو تو تب بھی ان کے خلاف کارروائی کے دوران ہدف میں امتیاز، متناسب طاقت کے استعمال اور احتیاط کے اصولوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بصورت دیگر ان پر حملے بین الاقوامی قانون کی پامالی متصور ہوں گے۔
اسی طرح، ہسپتال اور دیگر طبی مراکز پر دانستہ حملے، عام شہریوں کو جان بوجھ کر عسکری کارروائیوں کا نشانہ بنانا اور دانستہ غیرمتناسب شدت کے حملے بھی جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔ علاوہ ازیں، مخصوص حالات میں طبی مراکز کی دانستہ تباہی لوگوں کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہو سکتی ہے جو کہ جنگی جرم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ریاستی سطح پر، غیرریاستی کرداروں کی جانب سے یا کسی ادارے کی پالیسی کے تحت ایسے جرائم کا کسی آبادی کے خلاف وسیع پیمانے پر یا منظم طور سے ارتکاب کیا جائے تو یہ انسانیت کے خلاف جرم ہو گا۔
ہسپتالوں کا عسکری استعمال
رپورٹ کے مطابق، بیشتر مواقع پر اسرائیل نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ فلسطینی مسلح گروہ ہسپتالوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، اس نے اب تک اپنے دعوے کے حق میں مناسب ثبوت مہیا نہیں کیے اور یہ الزامات عام دستیاب معلومات سے متضاد ہیں۔
اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو فلسطینی مسلح گروہ بھی جنگی جرائم کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔
ہسپتالوں پر حملوں سے بالخصوص حاملہ خواتین بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ بہت سی خواتین کو حمل اور زچگی کے دوران برائے نام طبی مدد اور نگہداشت میسر آئی یا وہ اس سے بالکل محروم رہیں۔ اطلاعات کے مطابق بہت سے نومولود اس لیے ہلاک ہو گئے کہ ان کے ماؤں کو بعد از زچگی طبی معائنے یا زچگی کے لیے طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔
الشفا ہسپتال میں اجتماعی قبر
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہسپتالوں کے اندر اور ان کے قریب اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کے اثرات محض عمارتوں کی تباہی تک ہی محدود نہیں رہے۔
تیزی سے محدود ہوتی طبی سہولیات کے باعث بہت سے زخمیوں کو بروقت اور حسب ضرورت علاج میسر نہیں آ سکا۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، اپریل 2024 کے آخر تک 77,704 شہری زخمی ہو چکے تھے۔ ان میں بہت سے لوگ ہسپتالوں میں پہنچنے یا علاج سے پہلے ہی ہلاک ہو گئے۔ 7 اکتوبر 2023 اور 30 جون 2024 کے درمیانی عرصہ میں 500 سے زیادہ طبی کارکنوں کی ہلاکت ہوئی جن میں ڈاکٹر بھی شامل تھے۔
الشفا ہسپتال وہ پہلا طبی مرکز تھا جہاں نومبر 2023 میں اسرائیل کی فوج نے بڑے پیمانے پر کارروائی کی۔ مارچ 2024 میں اس پر دوبارہ حملہ کیا گیا اور یکم اپریل تک یہ ہسپتال گویا کھنڈر بن چکا تھا۔ اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد ہسپتال میں ایک اجتماعی قبر سے 80 لاشیں برآمد ہوئیں اور اس حملے میں بین الاقوامی جرائم کے ممکنہ ارتکاب کی بابت سنگین خدشات سامنے آئے۔ اس قبر سے ملنے والی بعض لاشوں کے ساتھ بیساکھیاں اورقنولا بھی پائے گئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں مریض بھی شامل تھے۔
طبی عملے اور مریضوں پر حملے
بعض حملوں میں اسرائیلی فوج نے ممکنہ طور پر بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا اور فضا سے بم گرائے جن سے بڑے علاقے میں تباہی پھیلی۔ 10 جنوری 2024 کو دیرالبلح کے الاقصیٰ شہدا ہسپتال کے سامنے کیے گئے فضائی حملے میں ایم کے 83 بم استعمال ہوئے۔ ان حملوں میں ایک صحافی سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہو گئے۔ گنجان آبادی پر انتہائی تباہ کن حملوں سے متناسب طاقت استعمال کرنے کے اصول کی خلاف ورزی سے متعلق سنگین خدشات نے جنم لیا۔
رپورٹ کے مطابق، ان حملوں میں بظاہر ہسپتال کے اندر موجود لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ادارے نے جبالیہ کے العودہ ہسپتال میں لوگوں کو گولی مارے جانے کے متعدد واقعات کی تصدیق کی ہے۔ ان میں ایک رضاکار نرس بھی شامل ہے جسے 7 دسمبر کو سینے پر گولی لگی۔
وولکر ترک نے کہا ہے کہ ان تمام واقعات کی غیرجانبدارانہ، مفصل اور شفاف تحقیقات اور بین الاقوامی قوانین کی پامالیوں پر مکمل احتساب ضروری ہے۔ غزہ سے ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے تمام طبی کارکنوں کو فوری رہا کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ قابض طاقت کی حیثیت سے وہ فلسطینیوں کی طبی خدمات تک مناسب رسائی یقینی بنانے میں مدد دے اور مستقبل میں طبی صلاحیت کی بحالی اور تعمیرنو کی کوششوں میں تعاون کرے جو گزشتہ 14 ماہ سے جاری جنگ میں تباہ ہو چکی ہے۔