شمالی غزہ میں اکتوبر سے شروع ہونے والے اسرائیل کے زمینی حملوں کے بعد عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی فراہم کردہ خوراک کا تین فیصد ہی علاقے میں پہنچایا جا سکا ہے۔
ادارے نے بتایا ہے کہ رواں مہینے میں نو ٹرکوں پر مشتمل اقوام متحدہ کا امدادی قافلہ بیت حنون پہنچنے میں کامیاب ہوا جہاں 75 روز سے زیادہ عرصہ سے کوئی مدد نہیں آئی تھی۔ اقوام متحدہ کے عملے کی جانب سے لی گئی تصاویر میں ضرورت مند اور مایوس لوگ اپنی پناہ گاہوں سے نکل کر پانی، آٹے اور ڈبہ بند خوراک کے حصول کی تگ و دو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
‘ڈبلیو ایف پی’ نے 6 اکتوبر کے بعد شمالی غزہ میں خوراک پہنچانے کے لیے اسرائیلی حکام سے 101 درخواستیں کی تھیں جن میں سے تین کو ہی منظوری مل سکی جن میں 20 دسمبر کو بھیجا جانے والا یہ امدادی قافلہ بھی شامل ہے۔
بقا کی جدوجہد
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے سربراہ ٹام فلیچر خبردار کر چکے ہیں کہ تقریباً مکمل طور پر زیرمحاصرہ شمالی غزہ میں قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے جبکہ جنوبی غزہ میں گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ جمع ہیں جو ہولناک حالات میں جی رہے ہیں اور موسم سرما کی آمد پر وہاں امدادی ضروریات کئی گنا بڑھ گئی ہیں
ٹام فلیچر نے گزشتہ ہفتے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے اقوام متحدہ کے عملے، شراکت داروں اور مقامی لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ غزہ دنیا میں امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے خطرناک ترین جگہ بن گیا ہے جہاں اس سال ریکارڈ تعداد میں امدادی کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ علاقے میں نظم و نسق ختم ہو گیا ہے اور مسلح جھتے اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں کو لوٹ رہے ہیں۔
‘محفوظ علاقوں’ پر حملے
شمالی غزہ میں اسرائیل کی فوج کے حملے بدستور جاری ہیں جبکہ امداد کی فراہمی انتہائی محدود ہے تقریباً 15 ہزار لوگ خوراک، پانی، بجلی یا طبی سہولیات کے بغیر بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
غزہ میں 14 ماہ سے جاری جنگ میں انسانی نقصان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات اسرائیل کے فضائی حملوں میں 20 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ یہ حملے جنوبی غزہ کے ساحلی علاقے المواصی میں بھی کیے گئے جسے اسرائیلی فوج نے ‘محفوظ علاقہ’ قرار دے رکھا ہے جبکہ وسطی غزہ کا النصیرت پناہ گزین کیمپ بھی ان حملوں کا نشانہ بنا ہے۔