عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) مشرق وسطیٰ میں جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ہسپتالوں کو فعال رکھنے اور خصوصی علاج کے متقاضی مریضوں کو دوسرے ممالک میں بھیجنے کے اقدامات کر رہا ہے۔
مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کی ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان بلخی نے قاہرہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے، لبنان اور سوڈان میں فوری اور پائیدار جنگ بندی ممکن بنانے اور ان علاقوں میں انسانی اور طبی امداد کی فراہمی کے لیے بلارکاوٹ رسائی کی ضرورت ہے۔
"The campaign succeeded against unimaginable odds, as the planned humanitarian pauses were significantly curtailed. This speaks to the incredible courage of polio teams, parents and caregivers, who pursued health and hope despite times of despair."
— WHO Regional Office for the Eastern Mediterranean (@WHOEMRO) November 11, 2024
– Dr @HananBalkhy
انہوں نے بتایا کہ ‘ڈبلیو ایچ او’ شدید بیمار اور زخمی لوگوں کو بیرون ملک علاج کی سہولت دینے کے لیے تواتر سے کہتا آیا ہے۔ادارے نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس جنگ کےدوران 90 مریضوں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے 139 دیگر لوگوں کو علاج کے لیے متحدہ عرب امارات اور رومانیہ بھجوایا ہے۔
غذائی تحفظ کے ماہرین شمالی غزہ میں منڈلاتے قحط کے خطرے سے متعلق کئی مرتبہ خبردار کر چکے ہیں۔ چند ہفتے قبل اقوام متحدہ کے 15 اداروں کے رہنماؤں نے علاقے کی صورتحال کو تباہ کن قرار دیا تھا لیکن تب سے اب تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا بلکہ حالات پہلے سے بھی زیادہ بگڑ گئے ہیں۔
شمالی غزہ کے لیے طبی مدد
ڈاکٹر بلخی نے بتایا کہ گزشتہ تین ہفتوں میں شمالی غزہ کی جانب سات طبی مشن بھیجے گئے ہیں۔ ان میں پانچ کمال عدوان ہسپتال کے لیے تھے۔ اگرچہ ایسی مزید کارروائیوں کی منصوبہ بندی بھی کی گئی تھی لیکن اسرائیل کی فوج نے ان کے لیے سہولت مہیا نہیں کی۔
ان امدادی کارروائیوں کے ذریعے ہسپتالوں کو جراحی کا سامان، ادویات اور دیگر ضروری اشیا بھجوائی گئیں۔ ایک موقع پر امدادی ٹیموں کے قریب شدید فضائی بمباری بھی ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
پولیو مہم کی کامیابی
ڈاکٹر حنان بلخی نے بتایا کہ غزہ میں بچوں کو پولیو ویکسین کی دوسری خوراک دینے کی مہم مکمل ہونا بہت بڑی کامیابی ہے جس سے علاقے کی آبادی کو اس بیماری کے خلاف موثر تحفظ میسر آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس مہم میں بہت سی مشکلات درپیش رہیں، جنگ میں انسانی بنیادوں پر طے شدہ وقفوں کی خلاف ورزی بھی ہوئی، تاہم اس کے باوجود اس مہم کا کامیاب اختتام پولیو ٹیموں، بچوں کے والدین اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کی غیرمعمولی جرات کا عکاس ہے۔
‘انروا’ کا ناگزیر کردار
انہوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال کا تذکرہ وہاں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امدادی ادارے ‘انروا’ کے غیرمعمولی امدادی کردار کے بغیر ادھورا ہے۔ علاقے میں طویل محاصرے اور جنگ سے تباہ حال لوگوں کو مدد پہنچانے میں اس جیسا کام کوئی اور ادارہ نہیں کر سکتا۔
‘ڈبلیو ایچ او’ کے ڈائریکٹر جنرل بھی کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی پناہ گزینوں اور جنگ زدہ علاقے کی آبادی کے لیے ‘انروا’ کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر بلخی نے ‘انروا’ کے عملے بشمول اس کے لیے کام کرنے والے طبی کارکنوں کی لگن کو سراہا جو ناقابل بیان تکالیف اور خطرات کا سامنا کرتے ہوئے لوگوں کی زندگی کو تحفظ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں ‘ڈبلیو ایچ او’ اور امدادی شراکت داروں کا کام ‘انروا’ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے غزہ اور مشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ فوری جنگ بندی اور انسانی و طبی بحرانوں کا سامنا کرنے والے شہریوں، طبی کارکنوں اور طبی مراکز کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ افغانستان سے شام، یمن، مقبوضہ فلسطینی علاقے، صومالیہ اور سوڈان تک ہر علاقے میں ضرورت مند لوگوں کا خیال رکھے اور انہیں تحفظ دینے کے مشن میں ادارے کے ساتھ کھڑی ہو۔