موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن سٹیئل نے کہا ہے کہ موسمیاتی اقدامات کے لیے نیا پرعزم مالی ہدف طے کرنا ضروری ہے جس سے امیر و غریب تمام ممالک کو فائدہ ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کو خیراتی عمل نہ سمجھا جائے بلکہ ایسا کرنا دنیا بھر کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح ہر انسان کو متاثر کر رہا ہے۔
“Now is the time to show that global cooperation is rising to this moment. So let’s rise here together.”
— UN Climate Change (@UNFCCC) November 11, 2024
At the opening of #COP29, UN Climate Change Executive Secretary @SimonStiell urged delegates to 'stand and deliver' in tackling the climate crisis.https://t.co/QrHqKTqZ7n pic.twitter.com/aHiAsdFnXK
سائمن سٹیئل نے یہ بات آزربائیجان کے دارالحکومت باکو میں آج شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرس (کاپ 19) کے موقع پر مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ یہ کانفرنس 22 نومبر تک جاری رہے گی جس میں دنیا بھر کے ممالک دیگر امور کے علاوہ موسمیاتی اقدامات کے لیے نیا مالی ہدف مقرر کریں گے جو فی الوقت 100 ارب ڈالر سالانہ ہے اور یہ 2009 میں طے کیا گیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات بالخصوص فضائی اور سمندری حدت پر قابو پانے کے لیے اب یہ رقم کافی نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کا فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) وہ واحد فورم ہے جس کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں ایک دوسرے کو جوابدہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کو روکنا ممکن نہیں ہو گا جو تیزی سے پانچ ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جائے گا۔
‘کوئی ملک محفوظ نہیں’
ایگزیکٹو سیکرٹری نے بتایا کہ اگر دنیا کے دو تہائی ممالک اپنے ہاں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تیزی سے کمی نہیں لاتے تو ہر ملک کو اس کی خوفناک قیمت چکانا ہو گی۔ اسی لیے موسمیاتی مالی وسائل کے لیے نیا معاہدہ طے پانا ضروری ہے۔
اگر ممالک نے موسمیاتی اثرات کے باعث بڑھتے اخراجات کے مقابل اپنی سپلائی چین کو مضبوط نہ کیا تو عالمی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نہر پانامہ میں پانی کی سطح کم ہونے کے باعث وہاں سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں کے وزن میں کمی لانا پڑ رہی ہے۔
ٹھوس نتائج کی لازمی ضرورت
سائمن سٹیئل نے مندوبین سے پوچھا کہ آیا وہ چاہیں گے کہ ان کی روزمرہ ضروریات اور توانائی کے حصول پر اٹھنے والے اخراجات میں مزید اضافہ ہو؟ کیا وہ اپنے ممالک کو معاشی طور پر دوسروں سے مزید پیچھے جاتا دیکھنا چاہیں گے؟ کیا وہ چاہیں گے کہ دنیا میں مزید عدم استحکام پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں قیمتی زندگیاں ضائع ہوں؟
انہوں نے کہا کہ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو پھر موسمیاتی مالی معاہدہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی کہ اسی صورت ممالک خطرناک موسمیاتی اثرات پر موثر طور سے قابو پا سکتے ہیں۔
اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے ‘کاپ 29’ کی اہمیت بیان کی اور کہا کہ اس کانفرنس میں ٹھوس نتائج کا حصول ضروری ہے اور یہاں آنے والے تمام مندوبین کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
گرم ترین دہائی
‘کاپ 29’ کے آغاز سے قبل اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے رواں سال موسمیاتی صورتحال پر اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت موسمیاتی تبدیلی جس قدر زور پکڑ رہی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اس میں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا بنیادی کردار ہے۔
2015 سے 2024 کا عرصہ اب تک کے گرم ترین 10 سال تھے جن میں گلیشیئروں کی برف پگھلنے اور سمندری سطح و حدت میں اضافے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ موسمی شدت کے واقعات سے دنیا بھر کے معاشرے اور معیشتیں بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
رواں سال جنوری سے ستمبر تک کرہ ارض کی سطح کا درجہ حرارت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.54 ڈگری سیلسیئس زیادہ تھا۔ اس میں سمندری موسمی کیفیت ال نینو کے باعث مزید شدت آئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونتیو گوتیرش نے اس رپورٹ پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ موسمیاتی تباہی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے، اس سے عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے، مستحکم ترقی میں رکاوٹ آ رہی ہے اور عالمی امن کی بنیادیں متزلزل ہو رہی ہیں۔ جو لوگ سب سے زیادہ کمزور ہیں وہ ان حالات میں سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔
کاپ 29 میں کیا ہو گا؟
اس کانفرنس کو ‘موسمیاتی مالیاتی کانفرنس’ بھی کہا جا رہا ہے جس میں دنیا بھر کے ممالک متوقع طور پر نیا موسمیاتی مالیاتی ہدف طے کریں گے۔ علاوہ ازیں، اس موقع پر ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے نقصان اور تباہی کے ازالے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کو عملی صورت بھی دی جائے گی۔ اس اقدام پر گزشتہ سال دبئی میں ہونے والی ‘کاپ 28’ میں اتفاق رائے ہوا تھا۔
اگرچہ تاحال یہ طے نہیں ہوا کہ اس ضمن میں کتنی رقم کب فراہم کی جائے گی تاہم اس حوالے سے فلپائن کی سربراہی میں ممالک کا بورڈ تشکیل دیا جا چکا ہے۔
‘کاپ 29’ میں تمام ممالک اپنے ہاں موسمیاتی اقدامات کے حوالے سے نئے اہداف سے آگاہ کریں گے جو فروری 2025 میں ‘یو این ایف سی سی سی’ کو جمع کرائے جانا ہیں۔ ان میں ممالک کی جانب سے بتایا جائے گا کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لیے مزید کون سے اقدامات کریں گے۔
کانفرنس میں پیرس معاہدے کے آرٹیکل 6 کو مکمل طور سے فعال کرنے کے لیے درکار رہنما ہدایات کی تکمیل پر بھی بات چیت ہو گی جس میں ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے اپنے منصوبوں میں اس مقصد کے لیے طے شدہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے رضاکارانہ تعاون کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ آرٹیکل ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے یا اس کا خاتمہ کرنے سے حاصل ہونے والے ‘کاربن کریڈٹ’ کے تبادلے کی سہولت بھی مہیا کرتا ہے اور اس طرح وہ دوسرے ممالک کو اپنے موسمیاتی اہداف کے حصول میں مدد دے سکتے ہیں۔
کانفرنس میں تمام ممالک موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ان کے قومی منصوبوں کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات کی شفافیت کے حوالے رپورٹ بھی جمع کرائیں گے۔