اقوام متحدہ کے 15 اداروں کے سربراہوں نے اسرائیل سے غزہ میں اور وہاں پھنسے 22 لاکھ لوگوں کو ضروری مدد پہنچانے والے امدادی کارکنوں پر حملے بند کرنے اور شہریوں کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
امدادی و دیگر اداروں کے سربراہوں پر مشتمل ‘بین الاداری قائمہ کمیٹی’ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی صورتحال تباہ کن ہے۔ خاص طور پر شمالی غزہ میں ایک ماہ سے زیرمحاصرہ لوگوں کو ہولناک حالات کا سامنا ہے۔ انہیں امداد کی فراہمی بند ہو گئی ہے جبکہ علاقے پر بمباری اور زمینی حملے جاری ہیں۔
گزشتہ چند روز میں ہزاروں فلسطینیی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ ہزاروں کو ایک مرتبہ پھر نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ ہسپتالوں کے اندر بھی حملے کیے جا رہے ہیں جہاں علاج معالجے کے سامان، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت ہے جبکہ اسرائیل کی فوج مریضوں اور طبی عملے کو گرفتار کر رہی ہے۔
امدادی کارکنوں پر حملے
بیان میں کہا گیا ہے کہ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہونے والے درجنوں سکولوں پر بم برسائے گئے ہیں یا انہیں زبردستی خالی کرا لیا گیا ہے۔ خیموں پر بمباری میں لوگ زندہ جل کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ امدادی ٹیموں پر جان بوجھ کر حملے کیے جا رہے ہیں اور انہیں ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے سے روکا جا رہا ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ غزہ بھر میں خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ انہیں جنسی و تولیدی صحت کی ضروری خدمات مہیا کرنے اور صنفی بنیاد پر تشدد سے تحفظ دینے والوں سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ پناہ کی تلاش میں پھرتے لوگوں پر حملے ہو رہے ہیں جبکہ مردوں اور لڑکوں کو گرفتار کر کے نامعلوم جگہوں پر لے جایا جا رہا ہے۔
علاقے میں مویشی بھی ہلاک ہو رہے ہیں، زرعی اراضی تباہ ہو گئی ہے، درخت جل گئے ہیں اور زرعی غذائی نظام ختم ہو گیا ہے۔
قحط کا خطرہ
کمیٹی نے کہا ہے کہ شمالی غزہ کی تمام فلسطینی آبادی کے بیماریوں، قحط اور تشدد سے ہلاک ہونے کا خطرہ ہے۔ رسائی میں حائل رکاوٹوں کے باعث علاقے میں انسانی امداد کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بنیادی ضرورت کی اشیا دستیاب نہیں ہیں۔ امدادی کارکن تحفظ کے مسائل اور اسرائیل کی فوج کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث ضرورت مند لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔
شمالی غزہ میں جاری لڑائی کے باعث پولیو مہم بھی ملتوی کر دی گئی ہے جس سے خطے میں بچوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی پامالی
رواں ہفتے اسرائیل کی پارلیمںٹ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) پر پابندیوں کے قوانین کی منطوری دی ہے۔ ان پر عملدرآمد غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔
ان قوانین کی منظوری اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے جس کے ان لاکھوں فلسطینیوں کی زندگی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے جو ‘انروا’ کی امداد اور خدمات پر انحصار کرتے ہیں۔ علاقے میں ‘انروا’ کا کوئی متبادل نہیں اور یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
کمیٹی کے ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ زخمیوں اور بیمار لوگوں کو علاج معالجہ میسر آنا چاہیے۔ طبی اہلکاروں اور ہسپتالوں کو تحفظ ملنا چاہیے اور ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔
عالمی قوانین کی کھلی توہین
کمیٹی نے بنیادی انسانیت اور جنگی قوانین کی کھلی توہین کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوران جنگ بین الاقوامی انسانی قانون بشمول جنگی اہداف میں امتیاز، متناسب کارروائی اور احتیاط کے اصولوں کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔ کسی ایک فریق کی جانب سے ان قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی سے دوسرے کو ان کی پامالی کا حق نہیں مل جاتا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شہریوں اور باقی ماندہ شہری تنصیبات پر حملے بند ہونے چاہئیں اور تجارتی سامان کو غزہ لانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
اسرائیل عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے احکامات پر عمل کرے، حماس اور دیگر فلسطینی مسلح گروہ یرغمالیوں کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کریں اور بین الاقوامی انسانی قانون پر عمل کیا جائے۔
رکن ممالک سے اپیل
انہوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی جنگ میں بین الاقوامی قانون کا احترام یقینی بنانے کے لیے فریقین پر اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ اس میں فریقین کو ایسے اسلحے کی منتقلی روکنا بھی شامل ہے جس کے استعمال سے بین الاقوامی قانون کی پامالی کا اندیشہ ہو۔علاقے میں پائیدار اور غیرمشروط جنگ بندی یقینی بنانے اور کشیدگی کا فوری خاتمہ کرنے میں اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں رہی۔
یہ بیان جاری کرنے والی کمیٹی میں امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کی قائم مقام رابطہ کار جوئس مسویا، عالمی ادارہ مہاجرت کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک، پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے سربراہ ایکم سٹینر، جنسی و تولیدی صحت کے ادارے کی ڈائریکٹر جنرل نتالیہ کینم، یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل، یو این ویمن کی سربراہ سیما باحوس، عالمی پروگرام برائے خوراک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مکین اور ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس بھی شامل ہیں۔