اقوام متحدہ کے حکام نے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے (انروا) کے بے بدل کردار کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر پابندی کے لیے اسرائیل کی پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کے نفاذ سے غزہ میں لوگوں کے مسائل مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے اس اقدام کو انتہائی پریشان کن قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ ‘انروا‘ ہی جنگ سے تباہ حال غزہ میں لوگوں کو امداد پہنچانے کا واحد موثر ذریعہ ہے۔
#UNRWA: We must never forget the value of UN Charter and the institutions it underpins. This decision is deeply troubling for many reasons – with potential dire impacts on the human rights of those depending on UNRWA’s assistance https://t.co/ZcOz0V6vRu
— Volker Türk (@volker_turk) October 29, 2024
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے ترجمان جیریمی لارنس نے کہا ہے کہ ہائی کمشنر نے اس اقدام کے ان لوگوں کے حقوق پر ممکنہ سنگین اثرات کے بارے میں متنبہ کیا ہے جو ‘انروا’ پر انحصار کرتے ہیں۔ ‘انروا’ کے بغیر غزہ کی بیشتر آبادی کو خوراک، علاج معالجے اور تعلیم کی فراہمی ممکن نہیں رہے گی۔
ترجمان نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سے متعلق خدشات کو دہراتے ہوئے کہا کہ غزہ میں شدید بمباری سے ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ معاشی و سماجی حقوق پر بین الاقوامی کنونشن سمیت انسانی حقوق سے متعلق متعدد معاہدوں کے تحت اسرائیل شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے ذمہ داریاں پوری کرنے کا پابند ہے۔
بچوں کی زندگی کو خطرہ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی سربراہ کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ فلسطینی بچوں اور بدحال خاندانوں کے لیے ‘انروا’ کا امدادی کردار بہت اہم ہے اور حالیہ قانون سازی سے ان کی زندگیاں اور مستقبل خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
یونیسف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ‘انروا’ کے بغیر غزہ میں امدادی نظام ختم ہو جائے گا اور ادارے کے لیے وہاں بچوں کو حفاظتی ٹیکوں، صحت و صفائی کے سامان، گرم کپڑوں، پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی ممکن نہیں رہے گی۔
‘ناقابل برداشت’ اقدام
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ‘انروا’ کو کام سے روکنے کے بارے میں اسرائیلی پارلیمںٹ کی قانون سازی کو ناقابل برداشت اقدام قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے قوانین پر عملدرآمد کے نتیجے میں ‘انروا’ پر انحصار کرنے والے تمام لوگوں کی صحت و زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
‘ڈبلیو ایچ او’ کے ترجمان طارق جاساروک نے کہا ہے کہ غزہ میں ‘انروا’ کا ایک چوتھائی عملہ طبی کارکنوں پر مشتمل ہے جو لوگوں کو انتہائی ضروری مدد پہنچا رہا ہے۔ اس نے ایک سال کے دوران غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی کو 60 لاکھ سے زیادہ طبی مشاورتیں مہیا کی ہیں۔
اس کی طبی ٹیمیں بچوں کو پولیو سمیت دیگر بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگانے، بیماریوں کی تشخیص اور غذائی قلت کا شکار لوگوں کے علاج سمیت کئی طرح کی طبی سہولیات کی فراہمی میں مصروف ہیں۔ ‘انروا’ کے پاس اس مقصد کے لیے 3,000 افراد کام کرتے ہیں اور کسی دوسرے امدادی ادارے کے پاس اس قدر افرادی قوت اور صلاحیت نہیں ہے۔
امدادی کاموں میں رکاوٹ
ترجمان نے بتایا ہے کہ رواں مہینے اسرائیل کی فوج سے غزہ میں مختلف مقامات پر 25 طبی مشن بھیجنے کی درخواستیں کی گئی تھی جن میں سے سات کو ہی منظوری مل سکی۔ جب تک انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفے دینے کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ طے نہیں پائے گا اس وقت تک شمالی غزہ میں پولیو ویکسین پلانے کی مہم بھی معطل رہے گی۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ‘انروا’ سے مدد لینے والے لاکھوں فلسطینیوں کی خاطر سفارتی بات چیت کو جاری رکھنا ہو گا۔ اقوام متحدہ اسرائیلی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے ان قوانین پر عملدرآمد رکوانے کی کوششیں کر رہا ہے۔