عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بہت جلد قحط پھیل سکتا ہے اور سردیوں کی آمد پر علاقے میں خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کی کمی کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔
جنگ میں کارخانوں، کھیتوں اور دکانوں کی تباہی کے باعث غزہ میں خوراک کا نظام بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ بازار خالی ہیں اور بیشتر تجارتی ذرائع فعال نہیں رہے۔
Food insecurity in Gaza could soon escalate into famine unless immediate action is taken.
— United Nations (@UN) October 29, 2024
Severe restrictions on humanitarian aid are worsening the situation.@WFP is calling for greater access to help avoid greater devastation.https://t.co/0vlZk1iFiq pic.twitter.com/f62oyuMP7O
‘ڈبلیو ایف پی’ کے پاس تقریباً 94 ہزار میٹرک ٹن خوراک موجود ہے جسے کسی بھی وقت غزہ میں بھیجا جا سکتا ہے اور اس سے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کی چار ماہ کی غذائی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ لیکن ادارے کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ سرحدی راستوں کا کھلا اور محفوظ ہونا ضروری ہے۔
رواں مہینے کے آغاز میں غذائی تحفظ کی مرحلہ وار مربوط درجہ بندی (آئی پی سی) کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ نومبر تک غزہ کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی کو شدید درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہو گا۔ لوگوں کی بڑی تعداد کو ہنگامی مدد کی ضرورت ہو گی جبکہ دیگر کو تباہ کن درجے کا غذائی عدم تحفظ درپیش ہو گا۔ شمالی غزہ کے ہولناک حالات کی وجہ سے قحط کے ممکنہ خطرے کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں
ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل میں کڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ رواں مہینے صرف پانچ ہزار میٹرک ٹن خوراک علاقے میں لائی جا سکی ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) پر پابندی کے حوالے سے اسرائیل کی پارلیمنٹ میں قوانین کی منظوری نے امدادی سرگرمیوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام اور 100 سے زیادہ رکن ممالک کہہ چکے ہیں کہ اگر ان قوانین پر عملدرآمد ہوا تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
‘ڈبلیو ایف پی’ نے کہا ہے کہ غزہ میں حسب ضرورت خوراک کی فراہمی کے لیے مزید سرحدی راستے کھولنا اور انہیں محفوظ بنانا ضروری ہے۔
اس ضمن میں غزہ کی اشدود بندرگاہ پر سامان کی کلیئرنگ اور جانچ کے عمل کو تیز رفتار بنانے کے اقدامات درکار ہیں۔ فی الوقت یہاں پہنچنے والے کسی سامان کو علاقے میں بھیجنے میں تقریباً ایک ماہ درکار ہوتا ہے۔
اسی طرح، اردن راہداری کے ذریعے بہت کم تعداد میں امدادی ٹرک غزہ میں آ رہے ہیں۔ ‘ڈبلیو ایف پی’ کو بڑے پیمانے پر غذائی مدد پہنچانے کے لیے ان کی تعداد اور رفتار میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ادارے نے بتایا ہے کہ فی الوقت ہر ہفتے 35 ٹرکوں پر مشتمل تین امدادی قافلے اس راہداری کے ذریعے غزہ پہنچتے ہیں جبکہ ان کی تعداد روزانہ 50 ٹرکوں تک بڑھانا ضروری ہے۔
سرحدی راستے کھولنے کا مطالبہ
‘ڈبلیو ایف پی’ نے جنوبی غزہ میں دیرالبلح تک براہ راست امداد پہنچانے کے لیے کیسوفم کے سرحدی راستے کو کھولنے کے لیے کہا ہے۔اسی طرح خاص طور پر غزہ شہر میں خوراک کی فراہمی کے لیے کرنی کراسنگ کو کھولنا ضروری ہے۔ اگرچہ فی الوقت زکم اور ایریز میں سے ایک ہی راستے سے امداد آ رہی ہے جبکہ ان دونوں راستوں کا کھلا، محفوظ اور فعال رہنا ضروری ہے۔
ادارے نے بتایا ہے کہ غزہ میں زیادہ تر امداد کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے پہنچتی ہے لیکن شاہراہ صلاح الدین پر امدادی قافلوں کو عدم تحفظ کا سامنا رہتا ہے۔ اس راستے پر سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنا کر بڑے پیمانے پر امدادی کارروائی ممکن ہو سکتی ہے۔
ڈرائیوروں اور ٹرکوں کی ضرورت
‘ڈبلیو ایف پی’ نے کہا ہے کہ غزہ کے اندر لوگوں تک انسانی امداد کی موثر طریقے سے فراہمی کے لیے امدادی سامان کے ٹرک چلانے والے ڈرائیوروں کی تعداد بڑھانا بھی ضروری ہے۔ اس وقت صرف 30 ڈرائیوروں کو کام کی اجازت ہے جبکہ ان کی تعداد 100 تا 150 ہونی چاہیے۔
زکم، ایریز اور گیٹ 96 کے راستوں سے جنوب کی طرف جانے پر پابندی ہے۔ غزہ کے اندر امداد کی ترسیل کو بہتر بنانے کے لیے شمالی سے جنوب اور جنوب سے شمال کی جانب سرحدی چوکیوں پر امدادی ٹرکوں کو سہولت ملنی چاہیے تاکہ وہ بڑی مقدار میں اور جلد از جلد ضرورت مند لوگوں تک پہنچ سکیں۔
‘ڈبلیو ایف پی’ کو غزہ بھر میں امدادی سامان کی ترسیل کے لیے ٹرکوں کی تعداد میں بھی اضافہ درکار ہے تاہم اس کے لیے جانچ پڑتال سے استثنیٰ کے عمل کو مزید تیزرفتار بنانا ہو گا۔