بچوں کے خلاف تشدد کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی نجات مالا مجید نے کہا ہے کہ دنیا میں ایک ارب بچے کئی طرح کے تشدد، استحصال اور بدسلوکی کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس مسئلے پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں انہوں نے بتایا ہے کہ بچوں کے خلاف تشدد بڑھتا جا رہا ہے اور یہ اس وقت دنیا کو درپیش ایک بڑا مسئلہ ہے۔
Violence against children may cost countries up to 11% of their GDP.
— United Nations Geneva (@UNGeneva) October 10, 2024
Investing in children’s safety is a must, and makes economic sense.#InvestInChildren #HighReturns @UN_EndViolence pic.twitter.com/98q2QtsMpR
رپورٹ کے مطابق، بہت سے بچوں کو ‘کثیرالجہتی غربت’ کے باعث تشدد کا خطرہ رہتا ہے۔ دنیا میں بچوں کی نصف تعداد (تقریباً ایک ارب) کو موسمیاتی بحران سے متاثر ہونے کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ہر چھ میں سے ایک بچہ یا نوعمر فرد جنگ زندہ علاقوں میں رہتا ہے۔ بچوں کے خلاف تشدد جس سطح پر پہنچ چکا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ کثیرالجہتی اور باہم مربوط بحران اس کی بڑی وجہ ہیں۔
لاکھوں بچے آن لائن اور آف لائن جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ بچہ مزدوری، نوعمری کی شادی، لڑکیوں کے جنسی اعضا کی قطع و برید، صنفی بنیاد پر تشدد، انسانی سمگلنگ، غنڈہ گردی، سائبر غنڈہ گردی اور دیگر مسائل بھی اس تشدد کا حصہ ہیں۔
‘کوئی ملک محفوظ نہیں’
نجات مالا نے کہا ہے کہ بچوں کو تشدد سے لاحق خطرات ایک عالمگیر مسئلہ ہےجو جغرافیائی اور سماجی۔معاشی حدود سے ماورا ہے۔اس وقت کوئی بھی ملک اور کوئی بھی بچہ اس سے محفوط نہیں۔ تمام ممالک میں بچے مختلف حالات میں کئی طرح کے تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔
11 اکتوبر کو بچیوں کے عالمی دن سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی جاری کردہ معلومات کے مطابق، آج دنیا میں 37 کروڑ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین ایسی ہیں جو 18 سال کی عمر سے پہلے جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکی ہیں یا انہیں ایسے حملے کا سامنا رہا ہے۔ اگر آن لائن یا زبانی بدسلوکی کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 65 کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 400 ملین بچوں کو گھروں میں تواتر سے نفسیاتی جارحیت اور جسمانی سزا جھیلنا پڑتی ہے
بچوں کا آن لائن استحصال
نجات مالا نے بچوں کے آن لائن استحصال پر خاص تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ بہت بڑا ہے۔ بچوں میں آن لائن ربط بڑھنے کے ساتھ ان سے آن لائن بدسلوکی کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
سائبر غنڈہ گردی بھی ایک اہم مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں 15 فیصد بچے اس کا شکار ہو چکے ہیں۔
نمائندہ خصوصی نے بتایا کہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا آسان نہیں کیونکہ اس مقصد کے لیے تین کرداروں یعنی متاثرین، بدسلوکی کرنے والوں اور یہ سب کچھ دیکھنے والوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔
بچہ مزدوری
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں 160 ملین بچے مزدوری کر رہے ہیں اور یہ بھی ان کے خلاف تشدد کی ایک قسم ہے۔ بچوں کو کام کرنے کے بجائے سکول میں ہونا چاہیے۔
نجات مالا نے کئی طرح کے تشدد کی باہم مربوط نوعیت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے مزدوری کرنے والے بہت سے بچے انسانی سمگلنگ اور جنسی استحصال کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔
طویل مدتی اثرات
نجات مالا نے بتایا ہے کہ رپورٹ میں بچوں کے خلاف تشدد کے سنگین نتائج کی بابت خبردار بھی کیا گیا ہے۔ اس سے ان کی ذہنی صحت پر طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بچوں میں خودکشی، ذہنی اختلال، کھانے پینے کی عادات میں بگاڑ، منشیات کی لت، مایوسی اور بعداز صدمہ ذہنی دباؤ (پی ٹی ایس ڈی) میں اضافے سے اس کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں بچوں پر تشدد سے ان کی تعلیم، کارکردگی اور سیکھنے کی صلاحیت کا نقصان بھی ہوتا ہے۔