انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں نسل کش حملوں، نسلی بنیاد پر تطہیر اور فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کے اقدامات سے بین الاقوامی کثیرفریقی نظام کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔
غزہ پر اسرائیل کے حملے کو ایک سال مکمل ہونے پر ادارے کے مقرر کردہ غیرجانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سنگین ترین بحران کا سامنا ہے۔ اس جنگ کے بعد ایسے واقعات سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے ہی اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ تاہم 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے حملوں اور اس کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کی نسل کش جنگ نے اقوام متحدہ کی افادیت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
‘The international order is breaking down in Gaza’:
— UN Special Procedures (@UN_SPExperts) October 11, 2024
UN experts mark one year of #Israel's genocidal attacks and ethnic cleansing on Palestinians, calling on all leaders to redouble their efforts to demand & achieve #CeasefireNOW.https://t.co/16K6ufZW06 pic.twitter.com/gWx9wztubw
ماہرین کا کہنا ہے کہ 9 اکتوبر کو اسرائیل کے وزیر دفاع گیلنٹ نے غزہ پر حملے کا حکم دیتے ہوئے علاقے کا مکمل محاصرہ کرنے اور وہاں بجلی، خوراک، پانی اور ایندھن کی ترسیل روکنے کا حکم دیا۔ 28 اکتوبر کو غزہ میں زمینی حملہ بھی شروع ہوا اور اس دوران اسرائیل کے حکام اور عوامی شخصیات نے تشدد کی ترغیب پر مبنی بیانات دیے۔
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے حملے کا حکم دیتے ہوئے بائبل کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ ‘مت بھولیں کہ دشمن نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، اب جائیں اور دشمن پر حملہ کریں، اس کے پاس جو کچھ ہے اسے تباہ کر دیں اور کسی کو مت چھوڑیں، مردوں، خواتین، نومولود اور چھوٹے بچوں، بیلوں، بھیڑوں، اونٹوں اور گدھوں سمیت سبھی کو ہلاک کر دیں۔’
ایک سال کے بعد اسرائیل کے رہنماؤں کی جانب سے غزہ کو تباہ کرنے کا وعدہ پورا کر دیا گیا۔ اب غزہ کی پٹی ملبے اور انسانی باقیات کا ڈھیر دکھائی دیتی ہے جہاں بچ رہنے والے مردوخواتین، بچے اور بوڑھے محرومیوں اور بیماریوں کا سامنا کرتے ہوئے زندگی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
فلسطینیوں کی بقا کو خطرہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے حملوں میں صحافیوں، طلبہ، اساتذہ، ڈاکٹروں، نرسوں، چھوٹے بچوں، حاملہ خواتین، معذور افراد، سرکاری ملازمین، خوراک اور تحفظ کی تلاش میں سرگرداں لوگوں، امدادی کارکنوں اور اقوام متحدہ کے عملے سمیت کسی کو بھی نہیں بخشا۔ پورے کے پورے خاندانوں کو ہلاک کر دیا گیا اور لوگوں کی نسلیں مٹا دی گئیں۔
جو لوگ اس جنگ میں اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے وہ بے گھر ہو کر چھوٹے سے علاقے تک محدود ہو گئے ہیں۔ متواتر بمباری نے ‘محفوظ علاقوں’ کو قتل گاہوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
کڑے محاصرے، امداد پر پابندیوں اور شہری آبادیوں اور تنصیبات پر بے رحمانہ بمباری کا نتیجہ غیرمعمولی بھوک کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ طبی ڈھانچے کی تباہی کے باعث قابل انسداد بیماریاں اور وبائیں تیزی سے پھیل رہی ہیں جبکہ تعلیمی، ثقافتی اور تاریخی اداروں کی تباہی سے فلسطینیوں کی ثقافت، قومی شناخت اور اپنی زمین پر ان کی موجودگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
یہ سب کچھ دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے اور اسی دوران مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر بے گھر کرنے، انہیں ہلاک کیے جانے، ان کی املاک کی تباہی اور ان کی زمین کو اسرائیل میں شامل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایسے افعال کی کوئی توجہیہ نہیں ہو سکتی۔
بین الاقوامی نظامِ انصاف کی توہین
ماہرین کا کہنا ہے کہ سالہا سال سے وہ ممالک پر ایسے مظالم کو روکنے کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے اور بین الاقوامی قانونی نظام، انسانی حقوق اور انسانیت کو برقرار رکھنے کے لیے زور دیتے آئے ہیں۔ تاہم ان کی اور یہی مطالبات کرنے والے دنیا بھر کے لوگوں کی آواز اکارت گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مظالم کے باعث بین الاقوامی نظام کی بقا خطرے میں ہے۔ عالمی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کی جانب سے حراستی وارنٹ جاری کرنے کی درخواست پر عدالت کے بروقت فیصلے کے باوجود عمل نہیں ہو سکا جبکہ نسل کشی کی مہم زور وشور سے جاری ہے۔
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے غزہ میں اسرائیل کے نسل کش اقدامات کو روکنے کے لیے جاری کردہ عبوری اقدامات کے حکم نامے کی تعمیل بھی نہیں ہو سکی۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو غیرقانونی قرار دینے سے متعلق ‘آئی سی جے’ کی مشاورتی رائے اور قبل ازیں اسی معاملے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کردہ قرارداد کے حوالے سے بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل بین الاقوامی قانون کی کھلی توہین کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
عالمی برادری سے اپیل
ماہرین نے کہا ہے کہ جنگ بندی ممکن بنانے اور وحشیانہ جرائم کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنے میں عالمی برادری کی ناکامی کے باعث ناصرف یہ غیرمعمولی سفاکیت جاری ہے بلکہ وسیع تر خطے میں بھی پھیلنے لگی ہے اور اب لبنان کو بھی تشدد اور تباہی کی آگ نے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تباہی کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ عالمی برادری کو اس کے بہت بڑے اور خاص طور پر بچوں پر مرتب ہونے والے سنگین اثرات سے بچنا ہے تو حالات میں ہنگامی بنیادوں پر تبدیلی لانا ہو گی۔
انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ تقسیم کا باعث بننے والے بیانیوں کو ترک کر کے جنگ بند کرانے اور فلسطینیوں، اسرائیل اور خطے بھر میں تنازعات کو حل کرانے کے لیے کام کریں۔ اس ضمن میں اسرائیل اور غزہ میں ناجائز طور سے قید تمام لوگوں کو فوری رہا کیا جانا ضروری ہے۔
ماہرین نے جنگ سے متاثرہ لوگوں کو ضروری انسانی امداد کی فوری فراہمی اور عالمی برادری سے اس امداد کی ترسیل کی ضمانت دینے کے لیے بھی کہا ہے۔
بین الاقوامی قانون کے احترام کا مطالبہ
انہوں نے تنازع کے تمام سابقہ اور موجودہ متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے دکھ اور تکلیف کو سمجھتے ہیں اور انہیں چاہیے کہ وہ تبدیلی لانے اور فلسطینی لوگوں کے مصائب کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ریاستی کرداروں اور عام لوگوں سمیت سبھی کو چاہیےکہ وہ دہرے امتیاز اور تفریق سے بچتے ہوئے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کا احترام کریں ۔
ماہرین کا کہنا ہے، دنیا تمام لوگوں کے لیے انصاف اور آزادی کو مدنظر رکھے اور بین الاقوامی امن کے لیے اپنے عہد کی تجدید کرے۔ یہ مقصد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں سمیت سبھی کو وقار اور آزادی کے ساتھ مساوی طور سے اکٹھے رہنے کے مواقع فراہم کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
ماہرین و خصوصی اطلاع کار
غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔