اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ادارے (انرا) پر پابندیوں کے لیے پیش کیے جانے والے قوانین تباہ کن نتائج کے حامل ہوں گے۔
نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ انہوں ںے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو براہ راست لکھے گئے خط میں ان قوانین کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگر انہیں منظور کر لیا گیا تو مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ‘انرا’ کے لیے اپنا کام جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
"Every air strike, every missile launch, every rocket fired, pushes peace further out of reach and makes the suffering even worse for the millions of civilians caught in the middle." –@antonioguterres pic.twitter.com/hsro0B0d7k
— UN Spokesperson (@UN_Spokesperson) October 8, 2024
ان کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین کے باعث غزہ سمیت پورے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں لوگوں کی تکالیف اور تناؤ کو کم کرنے کی کوششیں دم توڑ جائیں گی۔
‘انرا’ کا لازمی کردار
‘انرا’ کو 70 سال قبل مشرق وسطیٰ میں پانچ مقامات پر فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش کردہ قوانین کا مقصد ادارے کو اسرائیل کے زیرقبضہ ان علاقوں سے باہر نکالنا اور اسے حاصل قانونی استحقاق اور استثنیٰ واپس لینا ہے۔
یہ صورتحال ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب غزہ کی جنگ ایک اور ہولناک اور گھناؤنے برس میں داخل ہو گئی ہے جس کے خطے بھر میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔
انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے ‘انرا’ کا کام لازمی اہمیت کا حامل ہے اور اقوام متحدہ کے ایک ادارے کو دوسروں سے الگ کرنا قابل عمل نہیں ہو گا۔
امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں
سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اگر ‘انرا’ پر پابندیاں عائد کی گئیں تو اقوام متحدہ کے قافلوں، دفاتر اور پناہ گاہوں کا تحفظ متاثر ہوگا۔ اس سے خوراک، پناہ اور طبی امداد کی فراہمی رک جائے گی۔ ‘انرا’ کی غیرموجودگی میں چھ لاکھ بچے وہ واحد ادارہ کھو دیں گے جس کی بدولت وہ اپنی تعلیم دوبارہ شروع کر سکتے ہیں اور اس طرح ایک پوری نسل کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
علاوہ ازیں، مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی صحت، تعلیم اور بہت سی دیگر سماجی خدمات کی فراہمی بند ہو جائے گی۔
قیام امن کی کوششوں کا نقصان
انتونیو گوتیرش کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اسرائیل کی پارلیمنٹ نے ‘انرا’ پر پابندیوں کے قوانین کو منظور کر لیا تو یہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کی ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہو گی۔
سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسی قانون سازی پائیدار امن کے قیام کی کوششوں اور فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کے لیے بھی بہت بڑا نقصان ہو گا اور خطہ مزید عدم استحکام سے دوچار اور غیرمحفوظ ہو جائے گا۔
غزہ میں ‘موت کا کھیل’
اسرائیل کی پارلیمنٹ میں یہ قوانین ایسے موقع پر پیش کیے جا رہے ہیں جب غزہ میں موت کا کھیل جاری ہے۔ سیکرٹری جنرل نے شمالی غزہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں اسرائیل کی عسکری کارروائیوں میں واضح شدت آ گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں رہائشی عمارتوں پر حملے ہو رہے ہیں، ہسپتالوں کو خالی کرایا جا رہا ہے، بجلی بند ہو چکی ہے اور ایندھن یا تجارتی سامان کو علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ چار لاکھ لوگوں کو ایک مرتبہ پھر جنوب کی جانب منتقل ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے جہاں پہلے ہی بہت بڑی آبادی آلودہ ماحول میں اور اپنی بقا کے لیے بنیادی سہولیات کے بغیر مقیم ہے۔
پناہ، خوراک، ادویات اور پانی کی غیرموجودگی میں شہریوں کو انخلا کا حکم دے کر انہیں تحفظ مہیا نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ میں کوئی جگہ اور کوئی بھی فرد محفوظ نہیں ہے۔
بین الاقوامی قانون کی پاسداری کا مطالبہ
سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ہر جگہ شہریوں کو احترام اور تحفظ ملنا چاہیے اور ان کی بنیادی ضروریات پوری کی جانی چاہئیں۔ لوگوں کو انسانی امداد فراہم کرنا اور تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ جنوبی غزہ میں ضروریات زندگی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور اسرائیلی حکام امدادی سامان کی ترسیل کے لیے صرف کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے آنے والی غیرمحفوظ سڑک استعمال کرنے کی ہی اجازت دے رہے ہیں۔ نظم و نسق کے فقدان اور تحفظ کی عدم موجودگی کے باعث اس راستے پر امدادی قافلوں کی لوٹ مار اور پرتشدد واقعات عام ہیں جس سے امداد کی رسائی متاثر ہو رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ: بارود کا ڈھیر
سیکرٹری جنرل کئی ماہ سے خبردار کرتے چلے آئے ہیں کہ غزہ کا تنازع پھیلنے کا سنگین خطرہ موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ گویا بارود کا ڈھیر بن چکا ہے جہاں کئی فریق ماچس لیے کھڑے ہیں۔ مغربی کنارے میں تشدد اور لبنان میں ہونے والے حملوں کے باعث پورے خطے کا امن خطرے میں ہے۔
ایک سال کے دوران لبنان میں بڑے پیمانے پر اسرائیل کے حملوں میں دو ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس عرصہ میں حزب اللہ اور لبنان کے دیگر مسلح گروہوں کارروائیوں میں اسرائیل کے 49 شہریوں کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
اس تشدد کے نتیجے میں لبنان کے 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ان میں تقریباً تین لاکھ نے ہمسایہ ملک شام کا رخ کیا ہے جبکہ شمالی اسرائیل میں 60 ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
لبنان میں جنگ کا خطرہ
لبنان میں اقوام متحدہ کی عبوری فورس (یونیفیل) کے اہلکار دونوں ممالک کی سرحد پر بدستور اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ امن اہلکار دور حاضر کی ایک انتہائی مشکل صورتحال میں کام کر رہے ہیں۔ تمام متحارب فریقین کو چاہیے کہ وہ ان کا تحفظ اور سلامتی یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ لبنان میں ایک اور جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے جس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ لیکن اسے روکنا اب بھی ممکن ہے۔
مشرق وسطیٰ کا تنازع ہر لمحے بدترین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور کشیدگی کے ہولناک اثرات کی بابت اب تک سامنے آنے والے خدشات حقیقت کا روپ دھارنے لگے ہیں۔ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی فوری و غیرمشروط رہائی اور شہریوں کی انسانی امداد تک رسائی ممکن بنانا بہت ضروری ہے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل یقینی بنانے کے لیے پائیدار اقدامات کا مطالبہ جاری رہے گا۔ خطے میں تمام لوگ امن سے زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔