اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ لبنان ایک اور غزہ میں تبدیل ہو سکتا ہے جہاں اسرائیل کی بمباری اور انخلا کے احکامات سے متاثر ہونے والے 12 لاکھ لوگوں کو مدد کی فراہمی میں کڑی مشکلات درپیش ہیں۔
لبنان میں عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے ڈائریکٹر میتھیو ہولنگورتھ نے کہا ہے کہ اضافی مالی وسائل کی فراہمی کے بغیر ان لوگوں کی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہے جنہیں اچانک اپنا گھربار چھوڑنا پڑا ہے۔ لبنان کے حوالے سے امدادی اقدامات کی پہلے سے خاطرخواہ تیاری نہیں کی گئی تھی کیونکہ بڑے پیمانے پر مسائل گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں شروع ہوئے ہیں۔
#Lebanon
— United Nations Geneva (@UNGeneva) October 8, 2024
"We have upwards of 1.2 million people affected by this crisis; hundreds of thousands of people displaced from the seven districts in the frontline areas and the southern suburbs of Beirut; many of these towns, villages and suburbs nothing more than rubble.”
– @WFP pic.twitter.com/nJMvqTLXDN
اقوام متحدہ کی جانب سے لبنان کے بحران سے متاثرہ لوگوں کے لیے 426 ملین ڈالر کی امدادی اپیل پر تاحال 51.4 ملین یا 12 فیصد وسائل ہی مہیا ہو پائے ہیں۔
ہنگامی حالات میں نقل مکانی
ہولنگورتھ نے بتایا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو اچانک نقل مکانی کرنا پڑی ہے جن کی اس کے لیے کوئی تیاری نہیں تھی۔ بہت کم تعداد میں جو لوگ ہنگامی حالات کے لیے تیار تھے انہیں درپیش مسائل کی شدت قدرے کم ہے جبکہ اکثریت کو بمباری سے قبل عجلت میں اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا ہے۔
بیروت اور جنوبی لبنان پر شدید بمباری کے نتیجے میں ملک کی جنوبی سرحد کے قریب سات اضلاع کو آبادی سے خالی کرا لیا۔ اب ان میں سے بیشتر قصبے اور دیہات ملبے کا ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے غزہ، لبنان اور دیگر علاقوں میں تشدد روکنے کی اپیل کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ عام شہری اس جنگ کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ ہسپتال بند ہو رہے ہیں، دس لاکھ سے زیادہ شہری بے گھر ہو گئے ہیں، سکولوں کو نقصان پہنچا ہے اور لبنان کی صورتحال غزہ سے مشابہ دکھائی دینے لگی ہے جبکہ خطہ اسے ایک اور غزہ بننے دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
طبی مراکز پر حملے
‘ڈبلیو ایف پی’ نے بتایا ہے کہ لبنان میں اس وقت دو لاکھ سے زیادہ لوگ 973 رسمی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔ ان میں 773 پناہ گاہیں لوگوں سے بھر چکی ہیں۔ جنوبی علاقوں کے لوگوں نے محض اپنے گھروں اور زرعی زمینوں کی تباہی کے باعث ہی انخلا کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسرائیل کے حملوں میں اپنے خاندان کے ارکان اور دوستوں کو بھی کھو دیا ہے اور مستقبل کے حوالے سے سنگین اندیشوں کا شکار ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ 16 ستمبر سے اب تک لبنان میں طبی مراکز پر 17 حملے ہو چکے ہیں جن میں 65 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوئے۔ جنوبی لبنان میں 96 طبی مراکز بند ہو گئے ہیں اور فی الوقت پانچ ہسپتال ہی فعال ہیں۔
لبنان میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کے عہدیدار ایان کلارک نے کہا ہے کہ ہنگامی خدمات کو برقرار رکھنے کے لیے مزید چار ہسپتالوں کو مریضوں سے جزوی طور پر خالی کرا لیا گیا ہے۔ ڈائلیسز کروانے والے اور سرطان کے مریضوں کو دیگر ہسپتالوں میں بھیجا جا رہا ہے۔
زراعت کی تباہی
اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے کہا ہے کہ لبنان کے لیے فضائی، سمندری اور زمینی راستے کھلے رہنے چاہئیں تاکہ وہاں امدادی سامان کی ترسیل برقرار رہے۔
میتھیو ہولنگورتھ نے بتایا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جنوبی لبنان میں 1,900 ہیکٹر زرعی زمین جل گئی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں زرعی پیداوار کے حوالے سے اہمیت کا حامل 12 ہزار ہیکٹر رقبہ جنگ کے باعث ویران پڑا ہے اور بمباری کے نتیجے میں 46 ہزار سے زیادہ کسانوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ موجودہ حالات میں زیتون، کیلے اور ترش پھلوں کی چنائی ممکن نہیں ہو سکے گی۔