لبنان کے وزیر خارجہ نے عبداللہ بو حبیب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ملک میں جاری بحران فوری بین الاقوامی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے اور اسرائیل کے حملوں سے پورے مشرق وسطیٰ میں لامتناہی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جارحیت سے متاثرہ چھوٹے ممالک کو تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے فعال کردار کی ضرورت ہے۔ آج لبنان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مشرق وسطیٰ کے بحران کی بنیادی وجہ یعنی ‘قبضے’ سے پائیدار طور پر نہ نمٹنے کا نتیجہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی بھی اقدام محض وقت کا ضیاع ہو گا۔ جب تک قبضہ برقرار ہے اس وقت تک عدم استحکام بھی برقرار رہے گا اور جنگ ہوتی رہے گی۔
جنگ بندی کی کوششوں کا خیرمقدم
انہوں نے کہا کہ اسرائیل لبنان کے سرحدی علاقوں میں جنگ اور جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالیہ دنوں اس نے شہریوں کے زیراستعمال مواصلاتی آلات کو ٹائم بم کی صورت میں استعمال کیا جس سے خواتین اور بچوں سمیت درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی اور معذور ہو گئے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگرچہ دنیا نے ایسی جارحیت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی تاہم امریکہ، فرانس اور لبنان کے دیگر دوست ممالک کی جانب سے طویل مدتی امن، سرحدی علاقے میں استحکام کی بحالی اور نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی واپسی کے عزائم خوش آئندہ ہیں۔ لبنان سرحدی تنازعات حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ذریعے طویل عرصہ سے کوششیں کرتا رہا ہے لیکن اسرائیل نے اس مسئلے کو مسلسل نظرانداز کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خبردار کرتے ہیں کہ جارحیت کے نتیجے میں پورا مشرق وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ لبنان جنگ کے حق میں نہیں تاہم اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے تحفظ کا حق بھی رکھتا ہے۔
قرارداد 1701 سے وابستگی کی توثیق
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اقوام متحدہ اب تک لبنان کے لوگوں کو اسرائیل کی جارحیت سے تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے لیکن ان کا ملک قبضے، تشدد اور جبر کے خلاف پہلے دفاعی مورچے کے طور پر اس ادارے سے بدستور وابستہ ہے۔
لبنان سمجھتا ہے کہ مذاکرات جنگ کا قابل عمل متبادل ہوتے ہیں اور وہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 سمیت بین الاقوامی قانون سے اپنی وابستگی کی توثیق کرتا ہے۔ اس قرارداد سے لبنان کی وابستگی تعاون اور ملک میں امن و سلامتی کو لاحق مسائل سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کی جانب سے مہیا کی جانے والی مدد کی توثیق ہے۔
عبداللہ بو حبیب کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس جنگ کو طول دینا چاہتا ہے لیکن ان کا ملک اس جال میں نہیں آئے گا اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہا ہے۔
اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے سوال کیا کہ اسرائیل 1948 سے جنگ کر رہا ہے، آخر وہ کب امن چاہے گا اور آگ و لوہے کی زبان میں بات کرنے سے کب اکتائے گا؟