کیا دنیا کا انتظام کسی اور انداز میں بھی چلایا جا سکتا ہے؟ اس قدر عالمی ابتری کے دور میں ہم مستقبل کو منصفانہ کیسے بنا سکتے ہیں؟ حالیہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والے ایک بڑے اجلاس کو عالمی برادری کے لیے ان سوالات کے جواب ڈھونڈںے اور تمام انسانوں کے فائدے کی خاطر ایک نیا راستہ تشکیل دینے کا نادر موقع قرار دیا گیا ہے۔
‘مستقبل کی کانفرنس‘ کے عنوان سے یہ اجلاس اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں ادارے کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اعلیٰ سطحی مباحثے سے قبل 22 اور 23 ستمبر کو ہو رہا ہے۔
مستقبل کی کانفرنس کیا ہے؟
2020 میں اقوام متحدہ کے قیام کو 75 سال مکمل ہوئے اور اس موقع پر مستقبل کے حوالے سے امیدوں اور خدشات کے بارے میں ایک عالمگیر بحث نے جنم لیا۔یہ ایک ایسے عمل کا آغاز تھا جس نے بالآخر چار سال کے بعد مستقبل کی کانفرنس کے انعقاد پر منتج ہونا تھا۔
کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ اس وقت ہوا جب کووڈ۔19 وبا عروج پر تھی اور اقوام متحدہ میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ ممالک اور لوگ سبھی کو متاثر کرنے والے اس عالمگیر خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے بجائے نااتفاقی کا شکار ہو گئے ہیں۔
اس کانفرنس کی پالیسی ڈائریکٹر مشیل گریفن کہتی ہیں کہ وبا کے دوران ہمیں اپنے بانیوں کی خواہشات اور موجودہ دنیا کی حقیقت کے مابین فرق سے واسطہ پڑا۔ ہمیں خطرات سے نمٹنے، مواقع سے کام لینے اور اس ضمن میں اپنے طریقہ ہائے کار کے نقائص جیسے مسائل کا سامنا تھا۔
ایسے میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کو عالمگیر تعاون کے مستقبل بارے نیا تصور پیش کرنے کو کہا۔ انہوں نے ‘ہمارے مشترکہ ایجنڈے‘ کی صورت میں اس پکار کا جواب دیا۔ اس رپورٹ میں دنیا کو لاحق بہت سے خدشات اور خطرات سے نمٹنے کے لیے عالمگیر تعاون کی تجدید کے بارے میں سفارشات دی گئیں اور اس کے ساتھ رواں سال مستقبل کے بارے میں ایک کانفرنس کے انعقاد کی تجویز بھی پیش کی گئی۔
اس اجلاس میں پانچ بنیادی موضوعات پر اجلاس ہوں گے جن میں پائیدار ترقی و مالیات، امن و سلامتی، تمام لوگوں کے لیے ڈیجیٹل مستقبل، نوجوان و نئی نسلیں اور عالمگیر انتظام شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انسانی حقوق، صنفی مساوات اور موسمیاتی بحران جیسے موضوعات پر بھی بات ہو گی جنہیں اقوام متحدہ کے ہر اقدام میں مدنظر رکھا جاتا ہے۔
‘مستقبل کا معاہدہ‘ اس کانفرنس کا نچوڑ ہو گا جس کے ساتھ عالمگیر ڈیجیٹل معاہدہ اور آئندہ نسلوں کے لیے اعلامیہ بھی منسلک ہوں گے۔ اس کانفرنس کے دوران رکن ممالک متوقع طور پر ان تمام معاہدوں کی منظوری دیں گے۔
کانفرنس کیوں اہم ہے؟
اگرچہ ان موضوعات پر ماضی میں بھی بات ہوتی رہی ہے اور اس کے نتیجے میں پیرس موسمیاتی معاہدہ اور پائیدار ترقی کے اہداف جیسے اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں تاہم ایک عام خیال یہ ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے نظام خاطرخواہ حد تک شفاف اور موثر نہیں رہے جنہیں کئی دہائیاں پہلے قائم کیا گیا تھا۔
مستقبل کی کانفرنس پہلے سے کیے گئے وعدوں کی بہتر طور سے تکمیل اور عالمی برادری کے لیے متحد ہونے اور ایک دوسرے پر اعتمادکو بحال کرنے کا موقع ہو گا۔
مشیل گریفن کہتی ہیں کہ اعتماد بین الاقوامی تعاون میں اہم ترین عنصر ہوتا ہے۔ یہ ہماری مشترکہ انسانیت اور ہمارے باہمی ربط کا احساس ہے۔ حالیہ کانفرنس ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے کہ رواں ماہ نیویارک میں آنے والے حکومتی عہدیداروں اور لوگوں کو ہی نہیں بلکہ سبھی کو ہمارے بہت بڑے اور مشترکہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اکٹھے ہو کر کام کرنا ہو گا۔
اہم کردار کون ہیں؟
اس کانفرنس سے پہلے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں سول سوسائٹی اور نجی شعبے کے نمائندے، ماہرین تعلیم، مقامی و علاقائی حکام، نوجوان، رکن ممالک کے سفیر اور دیگر دو روز تک کانفرنس کے مرکزی موضوعات پر گفت و شنید کریں گے۔
گریفن کہتی ہیں کہ اقوام متحدہ میں حکومتیں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ انہی کے نمائندے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں مگر وہ اپنے لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ مستقبل کی کانفرنس میں سول سوسائٹی کےکردار اور نوجوان ہر مرحلے میں ہونے والی بات چیت میں شامل ہوں گے۔ نجی شعبہ بھی کانفرنس میں موجود ہو گا جس کا دور حاضر میں لوگوں کی زندگیاں متشکل کرنے اور ان کے لیے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ہے۔ یہ کانفرنس سبھی کے لیے ہے اس میں سبھی کی شرکت ہو گی اور سبھی کو اس میں اپنا آپ دکھائی دینا چاہیے۔
آئندہ کیا ہو گا؟
کانفرنس کے منتظمین نے واضح کیا ہے کہ کانفرنس کا اختتامی اجلاس چار روز تک جاری رہنے والی بات چیت کا اختتام نہیں ہو گا۔
مشیل گریفن اس کانفرنس کو ایک طویل عمل کا آغاز قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے موقع پر لیے جانے والے فیصلوں کے اثرات کچھ عرصہ کے بعد ظاہر ہوں گے۔ حکومتوں کو عالمی سطح پر اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے جوابدہ بنانا سبھی کی ذمہ داری ہے۔
کانفرنس کے بعد اس میں پیش کی جانے والی سفارشات اور مستقبل کے معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ نومبر میں آزربائیجان اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 29) کا انعقاد کرے گا جس کے ایجنڈے میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا معاملہ سرفہرست ہو گا۔
دسمبر میں بوٹسوانا خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک کے بارے میں اقوام متحدہ کی کانفرنس کی میزبانی کرے گا جہاں پائیدار ترقی کے لیے طریقہ ہائے کار پر کام ہو گا۔
آئندہ برس جون میں سپین میں مالیات برائے ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس (ایف ایف ڈی 4) میں بین الاقوامی مالیاتی نظام بشمول عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے اداروں) میں اصلاحات کی کوششیں کی جائیں گے۔ یہی وہ ادارے ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کو کیسے اور کون سی شرائط کے تحت قرضے، مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔
عام لوگ کیا کردار ادا سکتے ہیں؟
اقوام متحدہ نے تمام لوگوں کو بہتر، مزید پرامن اور پائیدار مستقبل کے لیے کام کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ‘ایکٹ ناؤ‘ کے نام سے ایک عالمگیر مہم شروع کی ہے۔ اس پلیٹ فارم کا مقصد ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے جو بڑے عالمی مسائل پر آواز اٹھا رہے ہیں اور مثبت تبدیلی لا رہے ہیں۔ ان میں اپنے علاقوں میں رضاکارانہ طور سے کام کرنے والے لوگ، مقامی سطح پر فیصلہ سازی میں شریک افراد یا محض ماحولیاتی اعتبار سے مزید ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کے لیے اپنے صرف و خرچ کی ذاتی عادات میں تبدیلی لانے والے لوگ بھی شامل ہیں۔
کانفرنس سے پہلے اقوام متحدہ میں نوجوانوں کا دفتر #YouthLead کے عنوان سے نوجوانوں اور اپنے اتحادیوں کو متحرک کر رہا ہے۔ یہ عالمی رہنماؤں سے عالمگیر پالیسی سازی میں اپنے لوگوں کو مزید نمائندگی دینے کی اپیل ہے۔