اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کے قوانین، فوجداری انصاف کے نظام اور نسلی و مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو متاثر کرنے والی دیگر پالیسیوں میں تبدیلی لائے۔
ادارے نے چین میں شِنگ جینگ ویغور خودمختار خطے اور تبت میں مقامی لوگوں اور مسلم اکثریتی آبادی کے حقوق کی سنگین پامالیوں پر اپنی رپورٹ کی اشاعت کو دو سال مکمل ہونے پر کہا ہے کہ چین میں ایسے بہت سے قوانین اور پالیسیاں اب بھی قائم ہیں۔
31 اگست 2022 کو شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت ایسے دعووں کی آڑ میں لوگوں کے حقوق پامال کر رہی ہے جن کے مطابق اس کا مقصد ویغور آبادی میں دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے انسداد شدت پسندی کی جو پالیسی اپنائی ہے اس میں لوگوں کو فنی تربیت کی فراہمی اور تعلیم نو کے کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں۔
نظرثانی کی ضرورت
‘او ایچ سی ایچ آر’ کی ترجمان روینہ شمداسانی نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ ہائی کمشنر اور ان کے دفترنے اس معاملے میں اہم مسائل پر چین کی حکومت کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی ہے۔
اس دوران مساوات و عدم تفریق کے علاوہ قومی سلامتی کے امور اور ہانگ کانگ کے خصوصی انتظامی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال پر خدشات بھی زیربحث آئے۔
انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کی ایک ٹیم نے جون میں چین کا دورہ کیا تھا اور اس دوران حکام کے ساتھ متعدد امور بالخصوص انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں اور فوجداری انصاف کے نظام پر بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر شِنگ جینگ کے معاملے میں حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ علاقے میں نافذ کیے گئے متنازع قوانین کا انسانی حقوق کے تناظر میں مکمل جائزہ لیں اور اقلیتوں کو حقوق کی مبینہ پامالیوں بشمول تشدد سے تحفظ دیں اور ایسے واقعات کی مکمل تحقیقات کرائی جائیں۔
قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ
‘او ایچ سی ایچ آر’ کوامید ہے کہ چین کی حکومت اور سول سوسائٹی کے ساتھ اس کے فعال روابط برقرار رہیں گے تاکہ ملک میں تمام لوگوں کے انسانی حقوق کو تحفظ دینے کے معاملے میں ٹھوس پیشرفت ہو سکے۔
اطلاعات تک محدود رسائی اور اقوام متحدہ کے ساتھ رابطے میں رہنے والے لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی کے خدشات کے باوجود ادارہ ملک میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال پر بغور نظر رکھے ہوئے ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ادارہ چین کی حکومت سے حقوق کی پامالیوں کے ایسے واقعات پر بات کرتا آیا ہے جو خاص تشویش کا باعث ہیں اور حکام سے کہہ رہا ہے کہ وہ ناجائز طور پر قید میں ڈالے گئے تمام افراد کو فوری رہا کریں۔ علاوہ ازیں قیدیوں کے اہلخانہ کو ان کے بارے میں تمام تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔
روینہ شمداسانی نے بتایا کہ چین سے ‘او ایچ سی ایچ آر’ کی ان سفارشات اور انسانی حقوق سے متعلق دیگر طریقہ ہائے کار پر عملدرآمد کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک متاثرین کی جانب سے چین کی حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔