اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) نے بتایا ہے کہ کووڈ۔19 کے بعد دنیا بھر کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ بہت سی جگہوں پر خواتین ملزموں کو قانونی کارروائی سے پہلے ہی قید میں ڈالے جانے کے خطرات مردوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
جیلوں میں موثر اصلاحی پروگراموں کی غیرموجودگی کے باعث بڑی تعداد میں قیدی رہائی کے بعد دوبارہ انہی جرائم میں گرفتار ہو کر جیلوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ادارے کے مطابق، سزا یافتہ افراد کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کی حکمت عملی کی غیرموجودگی یا اس پر عملدرآمد نہ ہونے سے بھی قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
‘یو این او ڈی سی’ کا کہنا ہے کہ ‘نیلسن منڈیلا رولز’ (قیدیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں اقوام متحدہ کے کم از کم معیارات) کے مطابق اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے مجرموں کی سزا کے عرصہ کو ان کی اصلاح اور انہیں رہائی کے بعد پرامن اور سماج کے لیے فائدہ مند شہری بنانے کے لیے استعمال کیا جانا ضروری ہے۔
قیدی زیادہ جگہ کم
قید خانوں اور قیدیوں کے بارے میں ‘یو این او ڈی سی’ کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 میں دنیا بھر کی جیلوں میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 15 لاکھ افراد قید تھے جو ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں 5.5 فیصد بڑی تعداد ہے۔
دنیا میں 94 فیصد قیدی مرد ہیں جن کی تعداد دو سال پہلے ایک کروڑ آٹھ لاکھ تھی۔2022 کے آخر تک جیلوں میں خواتین کی مجموعی آبادی سات لاکھ ریکارڈ کی گئی جبکہ 2012 سے 2022 تک ان قیدیوں کا تناسب برقرار رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اگرچہ جیلوں میں قیدیوں کی مجموعی تعداد بڑھی ہے لیکن دنیا کی مجموعی آبادی میں ان کا تناسب کم ہو گیا ہے۔
دو سال پہلے دنیا بھر کے قیدیوں کی نصف تعداد ایشیا کی جیلوں میں تھی۔ تاہم، مختلف خطوں میں لوگوں کے قید میں جانے کی شرح ایک جیسی نہیں ہے۔ 2022 میں براعظم ہائے امریکہ میں رہنے والے لوگوں کے جیل جانے کا امکان ایشیا کے لوگوں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ تھا۔ 2022 سے پیچھے ایک دہائی کے عرصہ میں شمالی امریکہ کی آبادی میں قیدیوں کی شرح میں کمی دیکھی گئی۔ 2012 میں ایک لاکھ آبادی میں یہ تعداد 647 تھی جو 2022 میں کم ہو کر 489 پر آ گئی۔
اسی عرصہ کے دوران یورپ میں بھی یہ شرح کم ہو گئی جبکہ ایشیائی ممالک میں اس میں معمولی سا اضافہ دیکھا گیا جو 2012 میں 107 سے بڑھ کر 2022 میں 113 تک پہنچ گئی تھی۔
سزا سے پہلے قید
دنیا بھر کے ممالک میں تقریباً ایک تہائی قیدی اپنے خلاف قانونی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی جیل میں ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2012 میں مجموعی قیدیوں میں ان کی تعداد 31 لاکھ تھی جو 2022 میں بڑھ کر 35 لاکھ تک پہنچ گئی۔
قانونی طور پر سزا پانے سے پہلے ہی قید کاٹنے والے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد افریقہ اور اوشیانا میں ریکارڈ کی گئی۔ 2022 میں وہاں مجموعی قیدیوں میں ان کا تناسب 36 فیصد تھا۔ یورپ میں یہ تعداد سب سے کم (18 فیصد) رہی۔
2022 میں سزا پانے سے پہلے ہی قید کاٹنے والوں میں مرد قیدیوں کی تعداد 33 لاکھ 11 ہزار اور خواتین کی تعداد دو لاکھ 16 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ خواتین قیدیوں میں قانونی طور پر سزا پانے سے پہلے ہی قید کاٹنے والی خواتین کا تناسب 30 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ مردوں میں ایسے قیدیوں کی تعداد 31 فیصد تھی۔
تاہم، افریقہ، جنوبی و شمالی امریکہ اور اوشیانا میں قبل از سزا حراست میں رکھی گئی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اوشیانا خطے میں یہ تعداد سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جہاں 35 فیصد مرد قیدیوں کے مقابلے میں 43 فیصد خواتین قیدی جیلوں میں رہ کر اپنے خلاف قانونی کارروائی شروع ہونے کی منتظر ہیں۔
قید برائے اصلاح
‘یو این او ڈی سی’ نے بتایا ہے کہ دنیا کے 60 سے زیادہ ممالک کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں جہاں ان کی صحت اور انسانی حقوق کو خطرات لاحق ہیں۔ ہر سال جیلوں میں ہونے والی 10 فیصد سے زیادہ اموات کا سبب خودکشی ہوتا ہے۔
بعض ممالک کی جیلوں میں عملے کی کمی کے باعث وہاں قیدیوں کی اصلاح و بحالی کے پروگرام کماحقہ نہیں چلائے جا سکتے۔ دنیا بھر کی 80 فیصد جیلوں میں قیدیوں کی بحالی کے لیے کوئی حکمت عملی ہی نہیں بنائی گئی۔
ادارے نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ جیلوں کے ماحول کو بہتر بنانے اور قیدیوں کی بحالی کے لیے ‘نیلسن منڈیلا رولز’ پر عملدرآمد کریں تاکہ قید کا حقیقی مقصد حاصل ہو سکے۔ قید برائے اصلاح کے بجائے قید سزا کا نتیجہ جرائم اور جیلوں میں قیدیوں کے اضافی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔