مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار فرانچسکا البانیز نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کش کارروائیاں پوری فلسطینی سرزمین پر پھیلنے کا خدشہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی علاقوں میں حملے تیز کر دیے ہیں جہاں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہو رہی ہیں اور کوئی بھی فلسطینی محفوظ نہیں ہے۔
Apartheid #Israel is targeting #Gaza & the #WestBank simultaneously- UN independent expert @FranceskAlbs warns of unprecedented violence & #HumanRights violations, urging global action to prevent genocide against Palestinians & ensure accountability.https://t.co/PhwKLvnpkK pic.twitter.com/A9QbZDGttm
— UN Special Procedures (@UN_SPExperts) September 2, 2024
انہوں نے اسرائیلی ریاست کو نسل پرست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فلسطینی آبادیوں کے خاتمے، ان کی جگہ اسرائیلی آبادیاں قائم کرنے اور اپنے علاقے کو وسعت دینے کے مجموعی عمل میں غزہ اور مغربی کنارے کو بیک وقت نشانہ بنا رہی ہے۔
نسل کشی کی ترغیب
فرانچسکا البانیز نے اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے کہ نسل کشی کی متواتر ترغیب دینے والے اسرائیل کے اعلیٰ سطحی رہنماؤں اور حکام کے خلاف کبھی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے ارکان، مسلح آباد کار اور دیگر ان شخصیات کے بیانات کو عملی جامہ پہناتے ہیں جس سے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے ارادے کا اظہار ہوتا ہے۔
اسرائیل کے رہنماؤں کی جانب سے مغربی کنارے کے قصبوں اور پناہ گزین کیمپوں کو چھوٹے پیمانے پر غزہ میں تبدیل کرنے کی باتیں کھل کر کی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ عسکری کارروائیوں میں فلسطینیوں کے بھاری جانی نقصان اور مغربی کنارے کے شہری علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
فضائی اور زمینی حملے
فرانچسکا البانیز کا کہنا ہے کہ گزشہ چند مہینوں سے جینن، نابلوس، تلکرم اور توباس میں بالخصوص پناہ گزینوں کے کیمپوں پر منظم فضائی اور زمینی حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ 28 اگست کو اسرائیل کی قابض فورسز نے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر حملے کیے جن میں 22 فلسطینی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
ان کارروائیوں میں بلڈوزروں کے ذریعے سڑکوں اور پانی و بجلی کے نظام سمیت اہم تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا اور علاقے میں نئی فوجی چوکیاں قائم کی گئیں۔
گزشتہ دنوں تلکرم کے نور شمس پناہ گزین کیمپ اور زیرمحاصرہ جینین میں واقع ہسپتال سے انخلا کے احکامات جاری کیے گئے جہاں 150 مریض زیرعلاج ہیں۔ علاوہ ازیں، اسرائیل کی قابض فورسز نے تین بڑے ہسپتالوں میں داخلہ بند کر کے کرفیو لگا دیا جبکہ زمینی فورسز نے مشرقی یروشلم کے شوفات پناہ گزین کیمپ پر حملہ کر کے اسے محاصرے میں لے لیا۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ کاتز کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک خطرے سے اسی طرح نمٹے گا جس طرح غزہ میں دہشت گردوں سے نمٹا گیا اور اس میں فلسطینی شہریوں کا ان کے علاقوں سے عارضی انخلا اور دیگر اقدامات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کن جنگ ہے جسے ان کے ملک نے ہر حال میں جیتنا ہے۔
652 فلسطینیوں کی ہلاکت
انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی ریاست اوسلو معاہدے کے وقت سے مغربی کنارے میں لوگوں کو بے گھر کرنے، ان کی آبادی میں کمی لانے اور ان کی زمینوں کو قبضے میں لینے کی کارروائیاں کر رہی ہے جن میں اسے آبادکاروں کی ملیشیاؤں کا ساتھ بھی حاصل ہے۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کے قبضے کو غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود یہ سب کچھ جاری ہے۔ اسرائیل کو فلسطینی علاقوں میں قائم کردہ اپنی ناجائز بستیوں سمیت ان تمام اقدامات کو ختم کرنا ہو گا۔
ایسی کارروائیوں پر اسرائیل کے خلاف کوئی قانونی اقدام نہ ہونے کا نتیجہ مقبوضہ علاقوں سے فلسطینیوں کی بےدخلی کی صورت میں نکل رہا ہے اور وہ ایک قومی گروہ کی حیثیت سے اسرائیلی فورسز کے رحم و کرم پر ہیں جو ان کا خاتمہ کرنا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد مغربی کنارے میں 151 بچوں سمیت 652 فلسطینی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ 3,300 افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور 12,000 سے زیادہ ناجائز حراست میں ہیں۔
انہوں نے دنیا بھر کے ممالک، کاروباری کمپنیوں اور مالیاتی اداروں سے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی قبضے میں فلسطینیوں کو لاحق نسل کشی کے خدشے کا تدارک کرنے کے لیے ہرممکن قدم اٹھائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا احتساب اور بالآخر فلسطینی علاقوں پر اس کا قبضہ ختم ہونا ضروری ہے۔
ماہرین و خصوصی اطلاع کار
غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔