غزہ میں 10 ماہ کی ایک بچی پولیو کے باعث معذور ہو گئی ہے جو 25 سال کے بعد جنگ زدہ علاقے میں سامنے آنے والا اس بیماری کا پہلا مصدقہ کیس ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وسطی غزہ کے علاقے دیرالبلح میں اس بچی کی بائیں ٹانگ کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا ہے لیکن اب اس کی حالت مستحکم ہے۔
I am gravely concerned that a 10-month-old unvaccinated child from Deir al-Balah, #Gaza, has been confirmed to have polio—the first case in Gaza in 25 years. @WHO and partners urgently worked to collect and transfer stool samples from the child for testing at a WHO-accredited…
— Tedros Adhanom Ghebreyesus (@DrTedros) August 22, 2024
آن لائن بیان میں ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ ‘ڈبلیو ایچ او’ نے طبی اعتبار سے تصدیق کر لی ہے کہ اس بچی کو یہ معذوری ٹائپ 2 پولیو وائرس سے لاحق ہوئی ہے۔ یہ وائرس جون میں غزہ کے مختلف علاقوں سے جمع کیے گئے گندے پانے کے نمونوں میں پایا گیا تھا۔
پولیو مہم کی منصوبہ بندی
ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ غزہ اور اس خطے میں پولیو کے پھیلاؤ کے سنگین خطرے کو دیکھتے ہوئے فلسطین کے طبی حکام ‘ڈبلیو ایچ او’ اور عالمی ادارہ اطفال (یونیسف) کے اشتراک سے آئندہ ہفتوں میں دو مراحل پر مشتمل پولیو ویکسین مہم شروع کر رہے ہیں تاکہ وائرس کی منتقلی کو روکا جا سکے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے بتایا ہے کہ اس کی طبی ٹیمیں ‘ڈبلیو ایچ او’ اور یونیسف کے اشتراک سے اپنی طبی مراکز اور متحرک طبی عملے کو ویکسین پہنچانے کے کام میں تعاون کریں گی۔
‘انرا’ غزہ کی پٹی میں سب سے بڑا امدادی ادارہ ہے جو صحت کے شعبے میں بھی سب سے زیادہ مدد فراہم کرتا ہے۔ علاقے میں اس کے زیرانتظام 10 بنیادی طبی مراکز اور 100 متحرک کلینک کام کر رہے ہیں۔
نقل مکانی اور بقا کا خطرہ
غزہ میں پولیو کا خطرہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار محمد ہادی نے خبردار کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر اجتماعی نقل مکانی نے لوگوں کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور امدادی کاموں میں سنگین مشکلات حائل ہیں۔
رواں ماہ ہی اسرائیلی فوج نے مختلف علاقوں سے انخلا کے 12 احکامات جاری کیے جن کے نتیجے میں تقریباً 250,000 لوگوں کو دوبارہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔
محمد ہادی نے کہا ہے کہ اگر انخلا کے احکامات کا مقصد شہریوں کو تحفظ دینا ہے تو یہ مقصد پورا نہیں ہو رہا۔ ان احکامات کے نتیجے میں لوگوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے ٹھکانے چھوڑنے اور معمولی سازوسامان ساتھ لے کر فائرنگ اور بمباری میں سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے حالات میں لوگوں کی بڑی تعداد چھوٹے سے علاقوں میں جمع ہو گئی ہے جہاں آلودگی پھیل رہی ہے اور بنیادی سہولیات وجود نہیں رکھتیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ متواتر نقل مکانی کے باعث لوگوں کو اپنی بقا کے لیے درکار ضرورت خدمات بشمول طبی سہولیات، پناہ گاہوں، پانی کے کنوؤں اور امدادی سامان تک رسائی نہیں رہی۔