اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے غزہ کے سکولوں میں پناہ گزین لوگوں پر نئے حملوں کی مذمت کی ہے۔ امدادی ٹیموں نے خبردار کیا ہے کہ پانی کو صاف کرنے کے لیے درکار ضروری سازوسامان کی قلت کے باعث علاقے میں بڑے پیمانے پر سنگین بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے کہا ہے کہ غزہ میں پانی کو صاف کرنے کے لیے کلورین کا ذخیرہ صرف ایک ماہ کی ضروریات ہی پوری کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں خاص طور پر بچوں کی صحت و زندگی کو پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
Is there any humanity left?
— Philippe Lazzarini (@UNLazzarini) August 21, 2024
Reports of another horrific attack today on one of our @UNRWA schools in #Gaza city.
Children reported killed & injured. Some were burnt to death. #Gaza is no place for children anymore.
They are the first casualty of this merciless war.
We cannot…
ادارے کا کہنا ہے کہ پانی اور نکاسی آب کی مناسب سہولیات کے بغیر گنجان پناہ گاہوں میں رہنے والے لوگوں کو سردی کے موسم میں سنگین امراض لاحق ہونے کا خدشہ اور بھی بڑھ جائے گا۔ ہاتھ دھونے کے لیے صابن، کپڑے دھونے کے لیے ڈیٹرجنگ پاؤڈر، شیمپو اور جراثیم کش ادویات کی شدید قلت کے باعث بیماریاں آسان سے پھیل سکتی ہیں۔
اگر یہ چیزیں بازاروں میں دستیاب ہوں تو تب بھی لوگ انہیں خرید نہیں سکتے۔ غزہ کے بہت سے لوگوں کا انحصار ٹرکوں کے ذریعے پہنچائے جانے والے پانی پر ہے۔ اس وقت 22 امدادی شراکت دار روزانہ 775 مقامات پر 7,000 کیوبک میٹر پانی تقسیم کر رہے ہیں۔
سکول پر حملہ
امدادی حکام نے غزہ شہر میں اقوام متحدہ کے ایک سکول پر فضائی حملے کی مذمت کی ہے۔ اس زور دار حملے کے بعد متاثرہ مقام سے نکلنے والی آگ اور دھواں 12 کلومیٹر فاصلے پر بھی دیکھا گیا۔
یہ تیسرا موقع ہے جب پناہ گاہ کا کام دینے والے اس سکول کو حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل دسمبر اور جولائی میں بھی اس پر ایسے ہی حملے ہو چکے ہیں۔ یہ سکول فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے زیرانتظام چلایا جاتا رہا ہے جسے اب پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
‘انرا’ کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے بتایا ہے کہ اس حملے سے ایک روز قبل بھی غزہ شہر کے ایک اور سکول پر حملہ کیا گیا تھا جس میں متعدد بچے ہلاک و زخمی ہوئے۔
پناہ گاہوں میں تباہی
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد غزہ کی پٹی میں پناہ گاہوں کا کام دینے والے نصف سے زیادہ سکولوں پر براہ راست حملے ہو چکے ہیں ان حملوں میں 500 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 1,700 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
‘انرا’ نے کہا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت سکولوں کو حملوں سے تحفظ حاصل ہے۔ لیکن غزہ میں تحفظ کی تلاش میں ان سکولوں کا رخ کرنے والے لوگوں کو موت اور تباہی ملتی ہے۔ سکولوں سمیت دیگر شہری تنصیبات کو کسی طرح کا جنگی ہدف نہیں ہونا چاہیے۔
بڑھتی ہوئی اموات
غزہ کے طبی حکام نے بتایا ہے کہ اس جنگ میں اب تک 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ‘اوچا’ نے خبردار کیا ہے کہ متواتر نقل مکانی کے باعث امدادی شراکت داروں کے لیے اپنے کام پر نظر رکھنا اور لوگوں کے لیے اپنی بقا کا سامان ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو گیا ہے۔
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے 3 اور 16 اگست کے درمیان پانچ سال سے کم عمر کے 26,825 بچوں اور 12,728 حاملہ اور دودھ پلانے والے خواتین کو 30 یوم کے لیے خصوصی غذائی سپلیمنٹ فراہم کیے ہیں۔ یہ مدد خان یونس، دیرالبلح اور رفح میں مہیا کی گئی۔
بیجوں، کھادوں، مویشی پالنے اور فصل اگانے کے لیے درکار اشیا کی غزہ میں آمد بند ہے جس کے باعث مقامی سطح پر غذائی پیداوار کی بحالی میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔