اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزالیل سموترخ کے اس بیان کو ہولناک قرار دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ کے فلسطینی شہریوں کو بھوکا مارنا ‘قابل جواز اور اخلاقی اعتبار سے درست’ اقدام ہو سکتا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کے ترجمان جیریمی لارنس نے بتایا ہے کہ ہائی کمشنر نے معصوم شہریوں کے خلاف نفرت کی ترغیب دلانے کے اس بیان کی سختی سے مذمت کی ہے۔ جنگی مقاصد کے لیے شہریوں کو بھوکا رکھنا جنگی جرم ہے۔
UN Human Rights Chief @volker_turk is shocked & appalled by words of Israeli Minister Smotrich for whom letting 2 million Palestinians in #Gaza starve to death could be “justified & moral” in order to free hostages.
— UN Human Rights (@UNHumanRights) August 9, 2024
We condemn these words in the strongest terms. pic.twitter.com/463jqstHct
اسرائیلی وزیر نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ جب تک اسرائیل کے یرغمالی غزہ میں قید ہیں اس وقت تک وہاں کے عام لوگوں کو خوراک سے محروم رکھنا جائز اقدام ہو سکتا ہے تاہم دنیا انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
جرائم کی ترغیب
ترجمان نے عالمی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان کے انتباہ کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ہنگامی حالات میں شہریوں کو انسانی امداد کی فراہمی روکنا جرم ہے۔
وولکر ترک نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر کے اس براہ راست بیان سے فلسطینیوں کے خلاف دیگر ظالمانہ جرائم کی ترغیب ملے گی۔ ایسے بیانات فوری طور پر بند ہونا چاہئیں، ان کی تحقیقات کی جانی چاہئیں اور اگر یہ جرم کے مترادف ہوں تو ایسے بیان دینے والے کو قانونی کارروائی کے ذریعے سزا ملنی چاہیے۔
ترجمان نے بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کے تناظر میں غزہ کی جنگ کو فوری طور پر روکنے، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھوک اور بے گھری
اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے لیے انسانی امداد کی راہ میں کڑی رکاوٹیں حائل کر رکھی ہیں جس کے باعث علاقے کی آبادی قحط کے دھانے پر ہے جسے پینے کے صاف پانی اور ضروری ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
حالیہ دنوں غزہ کا دورہ کر کے آنے والے یونیسف کے افسر اطلاعات سالم اویس نے کہا ہے کہ علاقے کی صورتحال ٹی وی سکرینوں یا ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر دکھائی جانے والی تباہی سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ غزہ کے بچوں کی زندگی کو زندگی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے پاس نہ تو کوئی محفوظ جگہ ہے، نہ خوراک اور نہ ہی انہیں صاف پانی اور ادویات میسر ہیں۔
پناہ گزینوں کی عارضی خیمہ بستیوں میں ہر جگہ گندا پانی پھیلا ہے۔ جہاں بھی جائیں بچے یہی سوال پوچھتے ہیں کہ یہ جنگ کب ختم ہو گی؟
جنگ بندی کے لیے مذاکرات
اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ بالواسطہ بات چیت پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ امریکہ، مصر اور قطر کی جانب سے اسے جنگ بندی کے لیے معطل شدہ مذاکرات 15 اگست کو دوبارہ شروع کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
غزہ کے طبی حکام کے مطابق، اکتوبر 2023 سے جاری جنگ میں تقریباً 40 ہزار فلسطینی ہلاک اور 91,600 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔