اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے بنگلہ دیش میں تشدد کو فوری روکنے کے لیے کہا ہے جہاں عوامی احتجاج میں چند روز کے دوران پولیس حکام سمیت 80 سے زیادہ لوگ ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
ہائی کمشنر نے ملکی صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی قیادت اور سکیورٹی فورسز سے زندگی کے تحفظ اور پرامن اجتماع و اظہار کی آزادیوں کے حق کو برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔
Shocking violence in #Bangladesh must stop. Excessive force, disinformation & incitement to violence must cease.
— UN Human Rights (@UNHumanRights) August 4, 2024
Deeply worried more lives will be lost at planned mass march on Dhaka. Political leadership + security forces must protect right to life.
Accountability is crucial.
بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ ملازمتی کوٹے کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج پرتشدد صورت اختیار کر چکا ہے جس میں اب تک 32 بچوں سمیت کم از کم 300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مظاہرین نے آج سے دارالحکومت ڈھاکہ کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ برسراقتدار جماعت عوامی لیگ کے یوتھ ونگ کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کو روکا جائے گا۔
بڑے جانی نقصان کا خدشہ
حکومت نے ملک میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے جبکہ انٹرنیٹ تک رسائی معطل ہے۔ مارچ کے اعلان کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں ہنگامہ آرائی اور تشدد کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ ڈھاکہ سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ضلع سرائے گنج میں ایک پولیس سٹیشن پر حملے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ احتجاج اور مارچ کے دوران انسانی زندگیوں کے مزید نقصان اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر احتساب یقینی بنایا جانا چاہیے۔ عالمی برادری بنگلہ دیش کی حکومت پر واضح کرے کہ شہریوں کے حقوق کو بلاروک و ٹوک پامال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہائی کمشنر نے حکومت سےکہا ہے کہ وہ احتجاجی تحریک کے پرامن شرکا پر طاقت کا استعمال نہ کرے اور ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے تمام لوگوں کو رہا کیا جائے۔ انٹرنیٹ تک مکمل رسائی بحال کی جائے اور ملک میں بامعنی بات چیت کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جائیں۔
وولکر ترک کا کہنا ہے کہ عوامی بداطمینانی کو بزور طاقت دبانے کی کوشش، گمراہ کن اطلاعات کا پھیلاؤ اور نفرت کی ترغیب کو فوری بند ہونا چاہیے۔