انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے غیرجانبدار ماہرین نے متحدہ عرب امارات میں حقوق کے لیے کام کرنے والوں سمیت 43 افراد کو عمر قید کی سزا سنائے جانے پر تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ان لوگوں کو دہشت گرد تنظیم قائم کرنے کے الزام میں اجتماعی مقدمے کے ذریعے یہ سزا سنائی گئی ہے۔ نام نہاد ‘یو اے ای 84’ گروہ سے تعلق رکھنے والے ان ملزموں میں سے بیشتر قومی سلامتی سے متعلق مختلف جرائم کے الزامات میں پہلے ہی ایک دہائی جیلوں میں گزار چکے ہیں۔
United Arab Emirates: UN experts shocked by life sentences handed down to 43 people, including #HumanRights defenders & activists, citing extreme concerns about the unfair mass trial & lack of due process guarantees.https://t.co/9eur0J23HH pic.twitter.com/fdihfzFmFw
— UN Special Procedures (@UN_SPExperts) July 30, 2024
ماہرین نے کہا ہے کہ ان لوگوں کو منصفانہ قانونی کارروائی کی ضمانت دیے بغیر اجتماعی مقدمہ چلا کر سزا دینا تشویش ناک ہے۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران ان پر عائد کردہ الزامات، دفاعی وکلا اور ملزموں کے ناموں کو خفیہ رکھا گیا۔ ان میں متعدد ملزموں کو جبراً لاپتہ کیا گیا، قید تنہائی میں رکھا گیا اور بعض کو دوران قید ایک سال سے زیادہ عرصہ تک بدسلوکی کا سامنا رہا۔
اطلاعات کے مطابق ملزموں کے وکلا کو ان تک اور مقدمے کی دستاویزات تک آزادانہ رسائی نہیں تھی۔ ان میں بعض کو الگ کمرے میں سکیورٹی حکام کی نگرانی میں مقدمے کی فائلیں دیکھنے کی اجازت ملی جبکہ انہیں کاغذات کی کاغذی یا ڈیجیٹل نقول بھی فراہم نہیں کی گئیں۔
سزا پر سزا
نئی سزا پانے والوں میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے محمد عبداللہ الروکن بھی شامل ہیں جن کی سزا 2022 میں مکمل ہو گئی تھی تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا۔ ہادف رشید عبداللہ الاویس اور سالم ہمدون الشاہانی کو بالترتیب 2023 اور 2022 میں رہا کیا جانا تھا لیکن انہیں بھی قید میں ہی رکھ کر نئی سزا سنائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے محمد علی صالح المنصوری بھی 43 افراد کے اس گروہ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنی سزا 16 جولائی 2023 کو پوری کر لی تھی لیکن ان کی رہائی بھی عمل میں نہ آ سکی۔
عمر قید کی سزا پانے والوں کے علاوہ 10 افراد کو الاصلاح نامی مبینہ دہشت گرد تنظیم کے ساتھ تعاون اور ملک میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت منی لانڈرنگ کے جرم میں 10 سے 15 برس تک قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
بنیادی حقوق کی پامالی
ماہرین نے متحدہ عرب امارات پر زور دیا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ملکی قوانین سول سوسائٹی اور شہری آزادیوں کو ناجائز طور سے محدود کرنے کے لیے استعمال نہ ہوں۔ حکام ان لوگوں کو فوری رہا کریں اور ملک میں انسداد دہشت گردی کے قوانین پر بین الاقوامی قانون کی روشنی میں نظرثانی کریں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ 2014 کے انسداد دہشت گردی قانون میں بنیادی انسانی حقوق کو نظرانداز کیا گیا ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کے تحت قانونیت، ضرورت، تناسب اور عدم امتیاز کے اصول پر پورا نہیں اترتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سزا پانے والے ان لوگوں کو گرفتار ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ وہ محض اپنے بنیادی حقوق اور آزادیوں سے کام لے رہے تھے۔ ناجائز گرفتاریوں اور قید کے خلاف اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ 2013 اور 2023 میں ان میں سے بعض گرفتاریوں کو غیرقانونی قرار دے چکا ہے۔
زندگیوں اور خاندانوں کی تباہی
ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سی حکومتیں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو طویل قید کی سزائیں دے کر اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے روگردانی کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو طویل عرصہ کے لیے قید میں ڈالنا ان کی زندگیوں، خاندانوں اور ان کے معاشروں کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
ماہرین نے انسانی حقوق کے محافظوں کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہےکہ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایسے ناجائز، ناقابل دفاع اور قابل مذمت اقدامات کا فوری اور ہمیشہ کے لیے خاتمہ کریں۔
ماہرین اس معاملے میں متحدہ عرب امارات کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور رواں سال کے آغاز میں اپنے خدشات کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
ماہرین و خصوصی اطلاع کار
غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔