انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے منصفانہ قانونی کارروائی کے حق کو 57 برس سے متواتر پامال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جون 1967 میں اسرائیل کی فوج کے کمانڈر نے مغربی کنارے میں عسکری انتظامیہ، سلامتی، امن عامہ اور عدالتی اختیار کے حوالے سے تین احکامات جاری کیے تھے۔ بعدازاں انہیں تبدیل کر کے عسکری حکم نامے 378 کی صورت دے دی گئی جس کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔آج مغربی علاقے میں اسرائیلی پولیس، تفتیش کار، سرکاری وکلا اور جج انہی احکامات کی پیروی کر رہے ہیں جن کے تحت فوج کو وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔
ماہرین نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہقابض طاقت ہونے کے ناطے اسرائیل اس حکم نامے اور متعلقہ قوانین و ضوابط کو واپس لے، فوجی عدالتوں کو تحلیل کرے اور علاقے میں فلسطینیوں کو منصفانہ قانونی کارروائی کی ضمانت دے۔
#Israel: UN experts condemn 57 years of unfair trials for Palestinians in the occupied #WestBank, denouncing military courts' violation of due process since 1967, resulting in widespread impunity and failure to protect Palestinians from settler violence.https://t.co/XxbiZeSVXb pic.twitter.com/40Yi35saNO
— UN Special Procedures (@UN_SPExperts) July 3, 2024
دہرا عدالتی نظام
ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون سے برعکس، مقبوضہ مغربی کنارے میں دہرا عدالتی نظام نافذ ہے جس نے قبضے اور غیرقانونی آبادی کاری کو مزید قانونی تحفظ فراہم کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے فوج کی جانب سے نافذ کردہ سزاؤں کے ظالمانہ نظام سے کام لیا جاتا ہے جس کا جائز قانونی کارروائی کی ضمانت کے بغیر صرف فلسطینیوں پر ہی اطلاق ہوتا ہے۔
ماہرین نے اس امر پر خاص تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ فلسطینی بچے بھی اس ظالمانہ نظام کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس نظام میں آباد کاروں کے تشدد اور جرائم کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ قبضے کے آغاز سے ہی اسرائیلی فوج یا تو فلسطینیوں کو متشدد آبادکاروں کے تشدد سے تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے یا وہ خود تشدد کا ارتکاب کرتی چلی آئی ہے۔
ایسی کارروائیوں میں ماورائے عدالت ہلاکتیں، فلسطینیوں کی اپنے علاقوں سے جبری بے دخلی، املاک کو نقصان پہنچانا، تباہی، امتیازی سلوک، ہراسانی اور دھمکیاں شامل ہیں۔
جرائم کے لیے قانونی تحفظ
ماہرین نے کہا ہے کہ یہ عسکری نظام فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کے کئی پہلوؤں کو کنٹرول کرتا ہے جس میں صحت عامہ، تعلیم اور زمین و ملکیت سے متعلق قوانین بھی شامل ہیں۔ اس میں کئی طرح کے سیاسی و ثقافتی اظہار، میل جول، نقل و حرکت، غیرمتشدد احتجاج اور ٹریفک کے اصولوں کی خلاف ورزی کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔
نتیجتاً بیشتر حالات میں فوجی عدالتوں کے جج سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور ظالمانہ و توہین آمیز سلوک کو قانونی و عدالتی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح ان فلسطینیوں کے لیے قانونی طور پر اپنا دفاع کرنا ممکن نہیں رہتا۔
بین الاقوامی معیارات کے تحت جائز قانونی کارروائی کے حق میں مںصفانہ اور شفاف عدالتی عمل اور عدلیہ کی آزادی و خودمختاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ان معیارات کی رو سے عدالتی نظام کو جانبدار یا حکومت بالخصوص انتظامیہ اور مسلح افواج کی کسی شاخ کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔
انسانیت کے خلاف جرم
اسرائیلی فوج کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر سنسرشپ کے نفاذ کے باعث فلسطینیوں کے مقدمات میں ہونے والی اس ناانصافی کی تمام تفصیلات سامنے نہیں آتیں۔ اسرائیل کی فوجی عدالتوں نے فوجی وکلا کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کو اپنے وکلا سے 60 یوم تک ملاقات سے روکنے کی درخواست کر سکتے ہیں۔
اس طرح قیدیوں کو بالخصوص تفتیشی عمل کے دوران اپنے قانونی نمائندے کی خدمات حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب شہری آبادی کے خلاف وسیع اور منظم حملہ ہوتا ہے تو انہیں جسمانی طور پر آزادی سے محروم کیا جانا انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہو سکتا ہے۔
ماہرین نے اسرائیلی فوج کی جانب سے 29 مئی کو مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنے اختیارات آبادکاری کے حامی وزیر خزانہ بیزالیل سموترخ کے سپرد کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے کا اسرائیل کے ساتھ الحاق بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع ہے۔
ماہرین اپنے ان خدشات پر اسرائیل کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔
ماہرین و خصوصی اطلاع کار
غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔