غزہ میں داخلے کی مشکلات، ایندھن کی کمی اور امدادی سامان کے تیزی سے کم ہوتے ذخائر کے باعث ضرورت مند لوگوں کو مدد پہنچانے کی گنجائش محدود ہو گئی ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کی افسر اطلاعات لوسی ویٹریج نے بتایا ہے کہ غزہ کے شمالی، وسطی و جنوبی علاقوں میں ہر جگہ بمباری کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور پورا علاقہ واقعتاً ارضی جہنم کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
غزہ میں ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی ہے، ہر جگہ ملبے کے ڈھیر لگے ہیں، لوگ پلاسٹک کے خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں درجہ حرارت اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
More than 625,000 children in #Gaza have been out of school for over 8 months – 300,000 of them were @UNRWA students before the war
— UNRWA (@UNRWA) June 28, 2024
Play and learning activities provided by @UNRWA teams are critical in preparing children to get back to school and restore their right to education pic.twitter.com/lRTbSFpYFW
ملبے کے مکین
لوسی ویٹریج نے علاقے کا دورہ کرنے کے بعد یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ رفح میں ہر طرف تباہی پھیلی ہے۔ مئی میں اپنے پہلے دورے میں ان کا قیام اسی علاقے میں تھا جب اسرائیل نے مصر کے ساتھ سرحد کا کنٹرول سنبھال کر اسے بند کر دیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں غزہ کو انسانی امداد کی فراہمی میں نمایاں کمی آئی۔
لوسی ویٹریج نے بتایا کہ انہوں نے خان یونس سے گزرتے ہوئے ہولناک مناطر دیکھے۔ وہ 6 مئی کو رفح پر حملے سے پہلے وہاں نہیں گئی تھیں اور جب ان کا علاقے سے گزر ہوا تو وہ کسی ‘بھوت نگر’ کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں ہر شے تباہ ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر جگہ لوگ تباہ شدہ عمارتوں کے ڈھانچوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ جہاں دیواریں منہدم ہو گئی ہیں وہاں لوگوں نے پلاسٹک کی چادریں اور کمبل لٹکا رکھے ہیں۔
لاقانونیت اور لوٹ مار
انہوں ںے غزہ میں نظم و نسق تقریباً ختم ہو جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ لوگ خوراک کے حصول کی خاطر امدادی ٹرکوں کو روک کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ کیریم شالوم کے سرحدی راستے کی جانب جا رہی تھیں تو سڑک لوٹ مار کرنے والے لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ جب ان کی گاڑی وہاں سے گزری تو اتفاقاً اس وقت تباہ شدہ امدادی ٹرک بھی وہاں سے گزر رہے تھے جن کی ونڈ سکرینیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور یہ مناظر دیکھ کر لاقانونیت کا واضح احساس ہوتا تھا۔
اقوام متحدہ کے مراکز کی تباہی
انہوں نے کیریم شالوم سے خان یونس، دیرالبلح اور دیگر علاقوں میں اقوام متحدہ کے مراکز پر تباہی کا مشاہدہ بھی کیا جہاں عمارتوں پر بمباری سے ہونے والے سوراخ واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
‘انرا’ کے ہر سکول، گودام اور امداد کی تقسیم کے مرکز کو اسرائیل کی بمباری اور حملوں میں نمایاں نقصان یا مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عمارتوں پر گولیوں کے نشانات دکھائی دیتے ہیں، دیواریں منہدم ہو گئی ہیں، فرش ٹوٹ کر ایک دوسرے کے اوپر گرے ہیں جبکہ ان عمارتوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ حاصل تھا۔
ایندھن کی قلت
امدادی امور کے لیےاقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق رواں سال کے آغاز سے غزہ میں جو ایندھن (ڈیزل اور بینزین) آ رہا ہے اس کی مقدار اکتوبر 2023 سے پہلے کے مقابلے میں 86 فیصد کم ہے۔ جنگ سے پہلے غزہ میں ہر مہینے 14 ملین لیٹر ایندھن آ رہا تھا جس کی مقدار اب دو ملین لیٹر رہ گئی ہے۔
لوسی ویٹریج کا کہنا ہے کہ ایندھن نہ ہونے کے باعث امدادی اداروں کے لیے نقل و حرکت دشوار ہو گئی ہے۔ علاقے میں جاری لڑائی اور بمباری کے باعث کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے ایندھن لانا آسان ہیں۔ ‘انرا’ کے پاس خوراک اور سونے کے گدوں کی شدید قلت ہے تاہم اس کے باوجود لوگوں کو مدد پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی جار ہی ہے۔