غزہ میں 8,000 سے زیادہ بچوں میں شدید غذائی قلت کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں 1,600 کی حالت خطرے میں ہے جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے 28 بچے خوراک کی کمی کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی آبادی کے بڑے حصے کو تباہ کن درجے کی بھوک اور قحط جیسے حالات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں خوراک کی ترسیل میں اضافے کی اطلاعات کے باوجود فی الوقت انتہائی ضرورت مند لوگوں کو مناسب مقدار میں معیاری غذا میسر آنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
With support from @WHO and partners, Nasser Medical Complex is gradually expanding services to meet the rising health needs in southern #Gaza.
— WHO in occupied Palestinian territory (@WHOoPt) June 13, 2024
Thanks to support from @WorldBank, WHO recently provided 15 dialysis machines to the hospital, allowing the resumption of dialysis… pic.twitter.com/y7SaEUgZx6
امدادی ٹیموں کی کامیابی
امدادی ٹیموں کو درپیش سلامتی کے مسائل اور ان کے کام میں حائل رکاوٹوں کے باوجود امدادی شراکت دار غزہ میں ہر ہفتے 280,000 لوگوں کو طبی خدمات مہیا کر رہے ہیں۔ ‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ کھانا پکانے کی گیس کی قلت اور بجلی کی غیرموجودگی میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو کھانا مہیا کرنے کی سہولیات اور تنوروں کو چالو رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ لڑائی، تباہ شدہ سڑکوں، غزہ میں داخلے کے محدود مقامات، چوراہوں اور فوجی چوکیوں پر ہونے والی تاخیر اور بہت کم تعداد میں امدادی ٹرکوں کو علاقے میں داخلے کی اجازت ملنے جیسے مسائل سے خوراک فراہم کرنے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔
غزہ میں قحط جیسے حالات کا خاتمہ کرنے کے لیے دیگر طرح کی ضروری امداد بھی لوگوں تک پہنچنی چاہیے۔
غذائیت کی فراہمی متاثر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق، جنگ زدہ علاقے میں شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کو علاج معالجے کی بہت کم سہولیات میسر ہیں جبکہ بچوں کو غذائیت مہیا کرنے کے تین مراکز میں سے دو ہی فعال رہ گئے ہیں
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ غذائی قلت کا شکار بچے اپنے خاندانوں کی نظروں کے سامنے ہلاک ہو رہے ہیں۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ غزہ بھر میں بڑھتی ہوئی لڑائی کے باعث طبی سہولیات تک رسائی میں بڑے پیمانے پر مشکلات درپیش ہیں۔
مغربی کنارے میں تشدد
‘اوچا’ نے خبردار کیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی لوگوں پر اسرائیلی فورسز اور آباد کاروں کے تشدد کے باعث حالات خراب ہو رہے ہیں۔ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے زیرقیادت حملوں کے بعد مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 520 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں ایک چوتھائی تعداد بچوں کی تھی۔
ان میں سے تقریباً تین چوتھائی لوگ اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں میں ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 5,200 ہے۔
ادارے نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں نے 960 حملے کیے جن میں اضافہ ہو رہا ہے۔
طبی مراکز پر حملے
‘ڈبلیو ایچ او’ کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد مغربی کنارے میں طبی سہولیات پر 480 حملے ہو چکے ہیں جن میں 16 افراد ہلاک اور 95 زخمی ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ فی الوقت دنیا کی تمام تر توجہ غزہ پر مرکوز ہے جبکہ مغربی کنارے میں بھی طبی بحران سنگین صورت اختیار کر رہا ہے جہاں طبی مراکز پر حملے ہو رہے ہیں اور لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کے باعث ان کی طبی خدمات تک رسائی متاثر ہو رہی ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادیوں میں بھی وسعت آ رہی ہے جس سے طبی خدمات تک لوگوں کی رسائی پر اثر پڑا ہے۔ بیشتر علاقوں میں بنیادی طبی مراکز ہفتے میں دو روز ہی فعال رہتے ہیں اور ہسپتالوں کی کارکردگی 30 فیصد تک متاثر ہوئی ہے۔