عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) نے بتایا ہے کہ غزہ میں آٹھ ماہ کی جنگ کے بعد بیروزگاری 80 فیصد بڑھ گئی ہے جہاں غربت اور بھوک کا سامنا کرنے والے خاندان بقا کی خاطر اپنے چھوٹے بچوں کو بھی کام کے لیے بھیجنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
‘آئی ایل او’ کی ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ جنگ کے نتیجے میں غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے روزگار اور معیشت کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا ہے۔
گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران غزہ کی معاشی پیداوار میں 83.5 فیصد اور مغربی کنارے میں 22.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ دونوں مقبوضہ علاقوں میں مجموعی طور پر معاشی پیداوار 33 فیصد کم ہو گئی ہے۔
محنت کشوں کے بدترین حالات
‘آئی ایل او’ کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگبو نے جنیوا میں 112ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے محنت میں کہا ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں اسرائیل پر حماس کے حملوں اور پھر غزہ میں اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں علاقہ بری طرح بیروزگاری کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔
غزہ کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے، روزگار تباہ ہو گئے ہیں، لوگوں کو کام نہیں ملتا اور محنت کے حقوق باقی نہیں رہے۔ یہ 1967 کے بعد فلسطینی محنت کشوں کے لیے مشکل ترین وقت ہے اور اس سے پہلے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے گئے۔
بڑھتی ہوئی بیروزگاری
‘آئی ایل او’ اور فلسطین کے مرکزی دفتر شماریات کی جاری کردہ معلومات کے مطابق اس وقت غزہ کی پٹی میں بیروزگاری کی شرح 79.1 فیصد ہے۔
اگرچہ مغربی کنارہ اس جنگ سے براہ راست متاثر نہیں ہوا تاہم اس بحران کے بدترین اثرات وہاں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جہاں کام کے قابل آبادی کا ایک تہائی بیروزگار ہے۔
رپورٹ کے مصنفین نے بتایا ہے کہ مقبوضہ مغربی علاقے کے ان دونوں حصوں (مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی) میں بیروزگاری کی مجموعی اوسط شرح 50.8 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ بیروزگار لوگوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا جو مواقع نہ ہونےکے باعث کام چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
امدادی قافلوں کی مشکل
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں اسرائیل کی عسکری کارروائیاں شروع ہونے کے بعد اب ایک لاکھ سے کچھ کم لوگ علاقے میں رہ گئے ہیں جبکہ دس لاکھ افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ایسے بیشتر لوگوں نے خان یونس اور دیرالبلح میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ علاقے میں شدید لڑائی کے باعث انسانی امداد کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
امدادی قافلوں کو جنگ زدہ علاقوں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، اَن پھٹے گولہ بارود اور اسرائیلی حکام کی جانب سے تاخیری حربوں جیسی شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ مصر کے ساتھ رفح کی سرحد سے ایندھن کی فراہمی بند ہونے سے امدادی سرگرمیوں، ہسپتالوں، نکاسی آب کے نظام، پانی صاف کرنے کے پلانٹ اور تنوروں کو چلانے کا کام متاثر ہوا ہے۔
طبی مدد کی ضرورت
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کے باوجود طبی سازوسامان سے بھرا ایک ٹرک اور ایک ٹریلر کیریم شالوم کے راستے غزہ میں پہنچ گئے ہیں۔
اس سامان میں غیرمتعدی بیماریوں جیسا کہ ہائپر ٹینشن اور دل کی بیماریوں، ٹائپ ٹو زیابیطس اور سانس کے شدید امراض کی ادویات شامل ہیں جن سے 44 ہزار افراد کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ تاہم، ادارے کا کہنا ہے کہ یہ مدد انتہائی ناکافی ہے اور رفح کی سرحد سے مزید سازوسامان لانے کی ضرورت ہے جسے اسرائیلی فوج نے ایک ماہ سے بند کر رکھا ہے۔
‘ڈبلیو ایچ او’ نے یہ بھی بتایا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ کی پٹی میں طبی مراکز پر 464 حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں 727 افراد ہلاک اور 933 زخمی ہوئے جبکہ 101 طبی مراکز اور 113 ایمبولینس گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
ایسے 37 فیصد حملے غزہ شہر میں، 23 فیصد شمالی غزہ اور 28 فیصد جنوبی علاقے خان یونس میں ہوئے۔ ڈبلیو ایچ او نے دوران جنگ بین الاقوامی قانون کے احترام اور شہری آبادی اور طبی مراکز کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔