اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی گرمی کے باعث بچوں کی صحت و زندگی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں لُو اور پانی کی کمی سے بچانے پر زور دیا ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک ان دنوں گرمی کی شدید لہروں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 23 مئی سے اب تک درجہ حرارت 41 تا 50 ڈگری سیلسیئس رہا جبکہ انڈیا میں دارالحکومت دہلی سمیت متعدد شمالی ریاستوں میں 43 تا 47 ڈگری سیلیئس تک جا پہنچا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گرمی کی شدت کے باعث حکومت نے تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند کر دیے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسف کے ریجنل ڈائریکٹر سنجے وجے سیکرا نے والدین، بچوں کی دیکھ بھال کرنے والوں اور طبی کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کو گرمی سے بچانے کے لیے ہرممکن اقدامات کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ بڑوں سے برعکس بچے درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلی سے خود کو فوری ہم آہنگ نہیں کر سکتے۔ جسم سے فاضل گرمی کا اخراج ان کے بس میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں انہیں پانی کی کمی، جسمانی درجہ حرارت میں اضافے، دل کی دھڑکن میں تیزی، جسمانی اکڑن، پریشانی، بیہوشی اور طویل بے ہوشی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
بچوں کے لیے گرم ترین خطہ
جنوبی ایشیا میں شدید گرمی کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے سے زیادہ ہے۔ یونیسف کی جانب سے 2020 میں ترتیب دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق خطے میں 18 سال سے کم عمر کے 76 فیصد (460 ملین) بچوں کو شدید گرمی کا سامنا ہوا جبکہ یہاں 35 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ درجہ حرارت والے ایام کی تعداد دیگر خطوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ (83) تھی۔
علاوہ ازیں، پورے جنوبی ایشیا میں 28 فیصد بچوں کو ہر سال گرمی کی 4.5 یا اس سے زیادہ لہروں کا سامنا ہوتا ہے جبکہ باقی دنیا میں یہ شرح 24 فیصد ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچوں کو لاحق خدشات کے بارے میں یونیسف کے اشاریے (سی سی آر آئی) کے مطابق پاکستان افغانستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کو ان سے بچانے کے لیے مزید اقدامات ہونا چاہئیں اور ایسا ممکن بھی ہے۔
حدت سے تحفظ
جسم میں پانی کی کمی کے نتیجے میں شدید بخار اور اسہال ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، اس سے سانس کے شدید مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں جبکہ گردے فیل ہونے اور ماں کے پیٹ میں یا نومولود بچوں میں جسمانی بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ طویل عرصہ تک گرمی میں رہنے سے بچوں کی دماغی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ اس سے انہیں سیکھنے، یاد رکھنے اور توجہ برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہے اور ان کے لیے مستقبل کے مواقع بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ شدید گرمی کا سامنا کرنے والی حاملہ خواتین میں قبل از وقت زچگی اور مردہ بچے پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔
وجے سیکرا نے کہا ہے کہ بچے گرمی سے تحفظ کے لیے بڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی لیے یونیسف نے والدین اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ شدید گرمی کے موسم میں بچوں کو پانی کی کمی سے بچانے پر خاص توجہ دیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کو کو باقاعدگی سے پانی پلائیں، اگر انہیں پسینہ آ رہا ہوں، جسم گرم ہو یا قے کریں، منہ خشک اور چپچپا ہو یا سر میں درد کی شکایت ہو تو فوری طبی امداد کا بندوبست کیا جائے۔
بہت چھوٹے بچوں کو گرمی سے ہونے والے بخار کو دور کرنے کے لیے برف کی ٹکور، پنکھے کی ہوا اور نمدار کپڑوں سے کام لیں۔ قدرے بڑی عمر کے بچوں کو ٹھنڈے پانی میں رکھنا بھی مفید ہے۔ اگر کسی بچے کو تیز بخار ہو، اس پر غنودگی طاری ہونے لگے یا سانس لینے میں تیزی آ جائے تو قریبی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
یونیسف کی رہنمائی
یونیسف نے طبی کارکنوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ حاملہ خواتین اور بچوں میں شدید گرمی سے متاثر ہونے کی علامات کی فوری نشاندہی کریں۔ طبی کارکن، والدین، اہلخانہ، دیکھ بھال کرنے والے اور مقامی حکام درج ذیل اقدامات اٹھا کر حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی صحت و زندگی کو تحفط دے سکتے ہیں:
- گرمی کی شدت سے آگاہ رہیں اور ناصرف اپنے بچوں بلکہ خود کو بھی تحفظ دیں۔ گرمی سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کریں اور یہ آگاہی یقینی بنائیں کہ شدید گرمی کیا ہوتی ہے اور اس سے بچنے کے لیے کون سے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
- جسم پر شدید گرمی کی علامات کو باآسانی شناخت کرنے کی اہلیت پیدا کریں۔ گرمی سے متعلق متعدد بیماریوں کی علامات کو پہچانیں جن سے دیکھ بھال کرنے والوں، مقامی لوگوں اور نچلی سطح پر طبی مدد دینے والے عملے کی آگاہی ضروری ہے۔
- تحفظ کے لیے فوری قدم اٹھائیں۔ جسم کے بڑھے ہوئے درجہ حرارت کو مختصر وقت میں متوازن کرنے کے لیے درکار ابتدائی طبی امدادی اقدامات سیکھیں جو دیکھ بھال کرنے والوں اور نچلی سطح پر طبی امداد پہنچانے والوں کے لیے اٹھانا ضروری ہوتے ہیں۔
- مریض کو طبی مرکز پر لے جائیں۔ نچلی سطح پر طبی مدد دینے والے عملے، اہلخانہ اور دیکھ بھال کرنے والوں کو جسم پر شدید گرمی کے اثرات بالخصوص ہیٹ سٹروک کا اندازہ ہونا چاہیے اور جب ضروری ہو بیمار کو قریبی طبی مرکز میں لے جایا جانا چاہیے۔