سوشل میڈیا پر ایک دعویٰ وائرل ہو رہا ہے کہ آئین میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے ہر شہری کو ہندی اور سنسکرت زبانیں لکھنا-پڑھنا آنا چاہیے۔
بی جے پی کے سابق رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے مدارس میں سنسکرت پڑھائے جانے کے فیصلے سے متعلق ایک پوسٹ کو ری-پوسٹ کرکے لکھا کہ-’آئین کے مطابق ہر شہری کو ہندی اور سنسکرت لکھنا-پڑھنا آنا چاہیے، بابا صاحب سنسکرت کو راج بھاشا بنانا چاہتے تھے لیکن ان کی تجویز منظور نہیں ہو سکی‘۔
Tweet Archive Link
دیگر سوشل میڈیا یوزرس اشونی اپادھیائے کی پوسٹ کو تقریباً کاپی پیسٹ کرکے اسی طرح کے دعوے کر رہے ہیں۔
Tweet Archive Link
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی جانچ-پڑتال کے لیے، DFRAC ٹیم نے اس تناظر میں گوگل پر کچھ کی-ورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ٹیم کو کچھ میڈیا رپورٹس ملیں۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے ایک آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ پورے ملک میں 100 سے زائد زبانیں اور 270 مادری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تاہم، آئین میں کسی ایک زبان کو بھارت کی ’قومی زبان‘ کے طور پر فہرست بند نہیں کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 343 (’یونین کی سرکاری زبان‘) کی شق 1 کہتا ہے،’یونین (وفاقی حکومت) کی کام کاج یعنی دفتری زبان دیوناگری رسم الخط میں ہندی ہوگی‘ اور ’یونین کے سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے اعداد (نمبر) کی شکل بین الاقوامی ہوگی‘۔
آرٹیکل 351 (ہندی زبان کے فروغ کے لیے ہدایات) کہتا ہے،’یہ یونین کا فرض ہوگا کہ وہ ہندی زبان کو فروغ دے، اسے ترقی دے تاکہ یہ بھارت کی جملہ ثفقافت کے عناصر کے اظہار کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر کام کر سکے‘۔
بی بی سی ہندی کے شائع کردہ ایک مضمون کے مطابق- 14 ستمبر 1949 کو آئین کے آرٹیکل 343 سے آرٹیکل 351 کی شکل میں جو قانون بنا، اس میں ہندی کو قومی زبان نہیں بلکہ راج بھاشا (دفتری زبان) کا درجہ دیا گیا۔ 1960 کی دہائی میں غیر ہندی بولنے والی ریاستوں میں کئی پرتشدد جھڑپوں کے بعد ملک کی پارلیمنٹ نے ایک قومی زبان کے خیال کو ترک کر دیا۔
بھارت لسانی اعتبار سے متنوع ملک ہے۔ DFRAC ٹیم نے پایا کہ آئین کے مطابق بھارت کے ہر شہری کے لیے ہندی اور سنسکرت پڑھنا اور لکھنا آنا لازم نہیں ہے۔
بھارت کا آئین ہندی اور سنسکرت سمیت 22 آفیشیل زبانوں کو منظور کرتا ہے، اور ریاستوں کو اپنی آفیشیل زبان طے کرنے کا حق دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 343 میں مرکزی حکومت کے سرکاری مقاصد کے لیے ہندی کے استعمال کا ذکر ہے۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ آئین کے مطابق ہندی اور سنسکرت کو پڑھنا لکھنا جاننا لازمی نہیں ہے، اس لیے اشونی اپادھیائے اور دیگر سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ گمراہ کُن اور غلط ہے۔