چین پر ایغور مسلمانوں پر ظلم و تشدد، حقوق سلب کیے جانے اور ڈِٹینشن سینٹر (حراستی مراکز) قائم کرکے نسل کُشی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ وہاں سے خبریں آتی رہتی ہیں کہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق، پامال کیے جارہے ہیں اور ماہِ رمضان میں ایغور مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ لمبی داڑھی رکھنا بھی منع ہے۔ سب سے زیادہ سوال ایغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے اٹھتے ہیں اور یہ سوال یونہی نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ایک کمیٹی کو اگست 2018 میں بتایا گیا تھا کہ پورا ایغور خود مختار علاقہ نظر بند ہے اور تقریباً 10 لاکھ افراد حراست میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں، جہاں ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایغور مسلم کے لیے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ بہتیرے ایغور مسلم جو دوسرے ملکوں میں پناہ گزیں ہیں، وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ساتھ ہونے والی بربریت کو دنیا کے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ وہیں سوشل میڈیا پر چینی ٹویٹر آرمی بھی کافی متحرک ہے اور شنجیانگ سے متعلق چینی ایجنڈے کے تحت پورے خطے کو پُرامن اور ترقیاتی مرکز، بتاتی ہے۔ یہ ٹویٹر آرمی نہ صرف مثبت خبریں پیش کرتی ہے، بلکہ ان ٹویٹر یوزرس کو ٹرول بھی کرتی ہے جو شنجیانگ اور ایغور مسلمانوں کے ظلم و تشدد پر لکھتے یا بولتے ہیں۔ چین کی یہ ٹویٹر آرمی حکومت کے ستائے ہوئے لوگوں کی ہمدردیاں بھی چھین لینا چاہتی ہے۔ یہ رپورٹ ایغور مسلمانوں کی تاریخ، چین کے ظلم و تشدد اور ٹرول آرمی کے کالے کرتوت پر مختصر باندازِ مفصل روشنی ڈالتی ہے۔
رپورٹ کے اہم نکات:
1) ایغور مسلمانوں کی تاریخ
2) چین کی ٹویٹر آرمی کا پروپیگنڈہ
3) چین کے ظلم و بربریت کے شکار مسلمان اور ان کی آپ بیتی
ایغور مسلمانوں کی تاریخ
چین کا صوبہ شنجیانگ مغرب میں واقع ہے۔ لفظِ ’شنجیانگ‘ کا معنیٰ ’سرحدی زمین‘ ہے۔ اس صوبے کی سرحدیں بھارت، افغانستان اور منگولیا سے ملتی ہیں۔ ایغور کمیونٹی نے خود کو آزاد اور خود مختار قرار دیا تھا لیکن 1949 میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد یہ صوبہ، چین کا حصہ بن گیا۔ ایک اندازے کے مطابق شنجیانگ میں ایغور کمیونٹی کی ایک کروڑ آبادی رہتی ہے، جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ایغور مسلم خود کو ثقافتی طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے قریب پاتے ہیں۔ ان کی زبان اور رہن سہن بھی انہی ممالک سے ملتا جلتا ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہےکہ اویغور کمیونٹی کے لوگ کشمیر میں بھی رہتے تھے، جو بعد میں شنجیانگ ہجرت کر گئے تھے۔ شنجیانگ کی معیشت، زراعت اور تجارت پر مرکوز رہی ہے۔ یہ تاریخی شاہراہِ ریشم (سلک روٹ) کی وجہ سے بھی بہت خوشحال رہا ہے۔ اس خطے میں چین کی جانب سے ’ہان‘ نسل کے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ایغور مسلمانوں کے لیے ہر طرح کے چیلنجز پیدا ہو گئے ہیں۔
چین کی ٹویٹر آرمی کا پروپیگنڈہ
شنجیانگ صوبے میں ایغور مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے بیچ چین کی حمایت میں ٹویٹر پر پروپیگنڈ کے لیے ٹویٹر آرمی لگ گئی ہے۔ ہماری ٹیم نے تقریباً 100 ٹویٹر اکاؤنٹس اور 1000 ٹویٹس کا تجزیہ (Analysis) کیا ہے، جن میں چین کے سپورٹ میں پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر، وہ یوزرس ملوث تھے، جنھوں نے بڑی ہوشیاری سے بغیر کسی سیاسی اور ایغور مسلم تنازعہ میں پڑے، محض شنجیانگ اور ایغور مسلمانوں کو خوشحال پیش کرتے ہوئے ٹویٹ کرتے ہیں۔ مثبت ٹویٹ کرنے والے یوزرس اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے خلاف ٹویٹ کرنے والے بعض یوزرس کو کنیکشن پاکستان میں چین کے سفارت خانے میں کلچرل کاؤنسلر ژانگ ہیکنگ، فالو بھی کرتے ہیں، جسے آپ ذیل میں دیے گئے انفوگرافک میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
ژانگ ہیکنگ کا تنازعات کے ساتھ ناطہ:
ژانگ ہیکنگ کا تنازعات کے ساتھ ایک تعلق رہا ہے۔ انہوں نے حجاب کے حوالے سے متنازعہ تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے ایک ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے چینی زبان میں لکھا تھا، جس کا اردو ترجمہ تقریباً بایں طور ہے،’اپنا حجاب اتارو، مجھے اپنی آنکھیں دیکھنے دو۔ #شنجیانگ رقص‘۔
ژانگ ہیکنگ کے اس ٹویٹ کے بعد کافی تنازعہ ہوا تھا، جس کے بعد انہوں نے اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ ژانگ ہیکنگ نے ایک اور ویڈیو ٹویٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے لکھا تھا،’اتنی خوبصورت کہ بیان کرنے کے لیے لفظ نہیں! شنجیانگ کی گُلیمِنا مغربی خطے کی موسیقی اور رقص پیش کرتی ہیں‘۔
غور طلب ہے کہ جس ویڈیو کو ژانگ ہیکنگ نے شیئر کیا تھا، اس ویڈیو کو ایک چینی یوزر نے پروپیگنڈا محکمہ کی جانب سے عام کیا جانے والا ویڈیو قرار دیا تھا۔ یوزر نے لکھا تھا،’ڈانس ڈرامہ، فائیو اسٹارس آؤٹ آف دی ایسٹ‘ بیجنگ میونسپل پارٹی کمیٹی اور شنجیانگ ایغور خود مختار علاقے کی پارٹی کمیٹی کے پروپیگنڈا ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کیا گیا تھا اور ہاٹن ضلع ژِنیو گیت اور ڈانس گروپ‘۔
Source: Twitter
وہیں ٹویٹر پر ایک یوزر، اینڈی بیریہم ہیں۔ انہوں نے ایک پوسٹر شیئر کرتے ہوئے لکھا،’یہ چین میں ایغور مسلمانوں کی نسل کشی نہیں‘۔ اس پوسٹر میں دکھایا گیا ہے کہ مغربی ملک اور وہاں کی میڈیا ایغور کا ماسک پہنا کر فیک ظلم و بربریت دکھاتی ہے۔ اس پوسٹر کو کئی یوزرس نے شیئر بھی کیا تھا، جسے آپ نیچے دیے گئے کولاج میں دیکھ سکتے ہیں۔
ٹوئٹر پر شاؤکِنگ تنتائی نامی ایک یوزر ہیں، جو شنجیانگ کے علاوہ پاکستان پر بھی خوب ٹویٹ کرتے ہیں۔ اس کاؤنٹ کے ٹویٹس، یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
ساتھ ہی، ہم آپ کو پانچ اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کر رہے ہیں، جہاں انہوں نے ٹویٹر پر چین کی حمایت میں مثبت ٹویٹس کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹویٹر اکاؤنٹس کے ہینڈل یہاں دیے جا رہے ہیں۔
1- گُلنار- https://twitter.com/GulnarNorthwest
2- عالیہ فاطر- https://twitter.com/fatir0505
3- شورین- https://twitter.com/shuren70372216
4- اینڈی بوریہیم- https://twitter.com/AndyBxxx
5- لاتی اوز- https://twitter.com/Latiaoz_02
ٹویٹر پر گلنار نامی یوزر @GulnarNorthwest ہیں۔ وہ انگریزی اور چینی زبانوں میں کیپشن لکھ کر شنجیانگ پر مثبت پوسٹس شیئر کرتی رہتی ہے۔ ان کے کئی ٹویٹس کا کولاج ذیل میں دیا جا رہا ہے۔
گلنار کی طرح عالیہ فاطر اور شورین نامی یوزرس بھی ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔ ان دونوں یوزرس کی ٹائم لائن پر جا کر پروپیگنڈہ ٹویٹس دیکھے جا سکتے ہیں۔
چین کے ظلم و بربریت کے شکار ایغور مسلمان اور ان کی آپ بیتی
چینی حکومت کی جانب سے ایغور مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی خبریں میڈیا میں مسلسل آتی رہتی ہیں۔ کئی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 10 لاکھ مسلمانوں کو ڈِٹینشن کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ چین کا موقف ہے کہ انھیں تعلیم دینے کے لیے کیمپوں میں رکھا گیا ہے لیکن ان کیمپوں کی کہانیاں اور واقعات بہت خوفناک ہیں۔
ڈِٹینشن سینٹر اور مذہبی پابندی:
کئی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈِٹینشن سینٹر (حراستی مرکز) میں ایغور مسلمانوں پر کافی حملے ہوتے ہیں۔ ان حراستی مراکز میں انہیں کرسی سے باندھ کر رکھا جاتا ہے۔ ان پر تشدد کرنے کے لیے پولیس والے انھیں کوڑے مارتے ہیں، ان کے ساتھ وحشیانہ مار پیٹ ہوتی ہے اور انھیں سونے تک نہیں دیا جاتا۔ 14 سال سے کم عمر کے بچے کو بھی اس ناقابل برداشت اذیت سے گذرنا پڑتا ہے۔کئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایغور مسلمانوں کو کئی طرح کی مذہبی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں روزہ رکھنا، لمبی داڑھی رکھنا اور حلال کھانا کھانے پر پابندیاں شامل ہیں۔
سینئر اقتصادی اور سیاسی مبصر، چین-امریکی معیشت کے ماہر اور تجارتی مشیر،کِن پینگ نے ایک ٹویٹ میں ایغور کی کہانی بتائی ہے۔ انہوں نے لکھا-’ایک ایغور ٹویٹر دوست نے مجھے ایک نجی پیغام بھیجا اور مجھ سے پوچھا،’چین ایغور مسلمانوں پر کیوں ظلم کرتا ہے، تم کافروں، تم ناپاک لوگوں؟‘ میں نے کہا،’یہ چینی کمیونسٹ پارٹی ہے جو پورے چین میں لوگوں پر مظالم ڈھاتی ہے۔ وہ بنی آدم (انسانیت) کے دشمن ہیں۔ وہ نہ صرف ایغور پر ظلم کر رہے ہیں بلکہ تبتیوں، داخلی منگولیائی اور ہان لوگوں پر بھی ظلم کر رہے ہیں، اور اپنے پنجے بڑھانا چاہتے ہیں پوری دنیا کے لیے‘۔
Source: Twitter
سنہ 2017 میں، شنجیانگ میں ایغور مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کے کریک ڈاؤن میں شدت آنے کے بعد، ایغور مصنف طاہر ہاموتی اِزگِل اور ان کے خاندان نے اس خطے سے بھاگ کر امریکہ میں پناہ لی۔ ’Arrested While Waiting For Nightfall‘ میں اِزگِل نے شنجیانگ میں ہونے والی تکلیف دہ واقعات کا ایک دلکش اور ذاتی تفصیلات پیش کی ہیں۔ انہی تفصیلات میں ان کے بھاگنے سے پہلے کے برسوں ایغور کمیونٹی کی جانب سے برادشت کیے گئے خوفناک تجربات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔
Source: Voachinese
یانگ ژیگانگ نامی یوزر نے لکھا،’میرا نام یانگ ژیگانگ ہے۔ میری پیدائش خود مختار خطہ شنجیانگ میں ہوئی تھی۔ میں نے 1982 میں اُرومَکی، شنجیانگ میں شنجیانگ یونیورسٹی آف فائینینس اینڈ اکنومکس میں پڑھائی کی۔ میں چینی حکومت کی جانب سے محروم ایغور کے بنیادی حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے شنجیانگ ایتھنک یوتھ ڈیموکریٹک اسوسی ایشن میں شامل ہو گیا۔ ثقافتی آزادی اور اسوسی ایشن کو دو بار 100,000 RMB سے زیادہ کا عطیہ کیا۔ 1992 سے 1994 تک، مجھے چینی پولیس نے نشانہ بنایا، جس نے مجھے اور میرے خاندان کو کئی بار دھمکیاں دیں، مجھ سے کہا کہ ایغور سے دور رہو اور ایغور تنظیموں میں حصہ لینا چھوڑ دو۔ بے بس ہو کر، میرا خاندان 1995 میں شنجیانگ سے فرار ہو گیا اور ایک مالیاتی خدمات کی کمپنی بنانے اور مستحکم کرنے کے لیے چینگدو، سیچوان چلا گیا۔ میری پیشہ ورانہ مہارت اور محنت کی وجہ سے کاروبار پھل پھول رہا ہے‘۔
Source: Twitter
Source: Twitter
مامُتجان عبد الرحیم نامی یوزر نے لکھا کہ-’کیا میرا خاندان میرے ساتھ ہے؟ نہیں، 2015 سے نہیں۔ کیا میں اس سے فون پر بات کر سکتا ہوں؟ نہیں، مئی 2017 سے نہیں۔ کیا میری بیوی دہشت گرد یا مذہبی انتہا پسند ہے؟ نہیں! کبھی نہیں۔ وہ ابھی بھی زیر حراست کیوں ہے؟ ایغور/مسلمان ہونے کے سبب‘۔ مامُتجان کے ساتھ کئی یوزرس ہیں، جو خود کو ایغور مسلم ہونے کا دعویٰ کرکے اپنے ساتھ ہوئے ظلم و ستم کی داستان سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔
Source: Twitter
برکت اللہ غفور نامی یوزر نے لکھا–’5 جولائی 2009 کے واقعے میں، میں نے چینیوں کو سڑکوں پر ایغوروں کو اسی طرح سڑکوں پر مارتے دیکھا۔ اور اس طرح انہوں نے نوجوانوں کو کاٹ ڈالا، ان کے بازو اور ٹانگیں توڑ دیں!‘۔
Source: Twitter
تان یاژیانگ نامی یوزر نے لکھا –’ہان کمیونسٹ پارٹی کے رکن وانگ ژین انسانیت کا مجرم ہے۔ جب وہ شنجیانگ میں بر سر اقتدار تھا تو اس وقت اگر کسی ہان کی ایغور آبادی والے علاقے میں بلاوجہ موت ہو جاتی تھی تو پانچ کلو میٹر کے دائرے میں جنس اور عمر کی پرواہ کیے بغیر سبھی ایغور پھنسائے جاتے تھے۔ کوئی بھی شخص اگلے دن کا سورج دیکھنے کے لیے زندہ نہیں بچتا تھا، اس لیے اسے باہر نکال کر تباہ کر دینا چاہیے‘۔
Source: Twitter
ایغور کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز ٹویٹ:
ایغور کمیونٹی کے خلاف جاری ظلم و تشدد کو چین کی جانب سے مغربی ممالک کا پروپیگنڈہ بتایا جاتا ہے۔ وہیں سوشل میڈیا یوزرس، ایسے ہیں، جو ایغور کمیونٹی کے خلاف نفرت بھرے ٹویٹ کرتے ہیں۔ ٹویٹر پر شوشینگ نامی یوزر نے لکھا-جو کتے کا کھانہ کھاتے ہیں، وہ مالک کے چہرے پر منحصر رہتے ہیں۔ امریکی آقا اب دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیا یہ کتے کا کھانہ کھانے والے مالک کے خلاف کھیلنے کی ہمت کرتے ہیں؟ جمہوریت حامی تحریک کے اس گروہ میں لاؤ ویئی کو چھوڑکر باقی سبھی یا تو چپ رہتے ہیں یا پھر براہ راست دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر ملک مخالف کا یہ گروہ ملک میں بد امنی پھیلا سکتا ہے تو میں ان کا سر کاٹ دوں گا۔ کتے کا کھانہ کھانے والے لوگوں کے اس گروہ کو بس کتے کا کھانہ کھانا ہے، اور پھر ڈرامے میں اداکاری کرنی ہے، بس گھومنا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے گھریلو مشہور ہستیاں ویبو پوسٹ کرتی ہیں‘۔
Source: Twitter
لیو ژونگ لیانگ نامی ٹویٹر پر ایک یوزر ہیں۔ انہوں نے اسی طرح کا کاپی پیسٹ مواد ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ہے جن میں شنجیانگ اور ایغور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تبصرہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بی بی سی، وائس آف امریکہ کی چینی زبان میں پبلش خبر پر ایک ہی کنٹینٹ پوسٹ کیا۔ انہوں نے لکھا- ہم شنجیانگ میں ہان لوگوں کی نسل کشی کرنے والے انتہا پسند ایغور مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہان شاہی خاندان کے شہنشاہ وو نے شنجیانگ کو ہونوں سے لیا تھا اور ہان لوگ پہلی صدی قبل مسیح میں شنجیانگ میں رہتے تھے! ایغور کے آباء و اجداد 9ویں صدی میں بَیکاک جھیل کے آس پاس سے شنجیانگ چلے گئے اور کئی بار ہان لوگوں کا قتل عام کیا! یہ ایغور اس علاقے کو لوٹ رہے ہیں، جہاں پہلی صدی قبل مسیح میں ہان لوگ رہتے تھے! ایغور شنجیانگ سے ہان لوگوں کو بھگانا یا ان کا قتل عام کرنا چاہتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے سیاہ فام امریکی، بھارتیوں اور گوروں کو باہر نکالنا چاہتے ہیں!‘۔
Source: Twitter
لیوژونگ لیانگ کے کاپی پیسٹ پیٹرن کے ٹویٹس نیچے کولاج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ساکیموتو مساؤ نامی یوزر نے ایک ویڈیو پوسٹ کرکے چین کے ایک ڈِٹینشن سینٹر کا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا،’آخر کار مجھے یہ مل گیا۔ ایغور خود مختار علاقہ ارومکی اسٹیشن پر بہت ہجوم ہے، کیونکہ کل سے مسلسل 5 چھٹیاں عید الاضحی کی ہیں۔ تمام ایغور تیز رفتار ریل پر کھیلنے جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں، وویو کو 50 فیصد قومی شرح کے ساتھ ایک ڈِٹینشن سینیٹر میں لیا گیا ہے اور استحصال کیا گیا ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘۔
Source: Twitter
نتیجہ:
دنیا بھر میں ایغور کمیونٹی پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑنے کی وجہ سے چین کی تنقید ہوتی رہی ہے۔ سوشل میڈیا ایغور مسلمانوں پر ہوئے مظالم کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایسے کئی لوگ بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے خود کو جبر و ظلم کا شکار بتایا ہے۔ وہیں چین کی سوشل میڈیا آرمی بھی پروپیگنڈے کے لیے سرگرم ہو گئی ہے اور وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جیسا میڈیا میں دکھایا جا رہا ہے ویسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ان سب کے بیچ سوال ایغور مسلم کے انسانی حقوق کا ہے، جس کا تحفظ کرنے میں شاید ہی کوئی دلچسپی لیتا ہے۔ مسلم ورلڈ بھی شاید ایغور مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے مظالم پر سیلیکٹیو (جانبدار) ہو جاتا ہے، اس لیے وہ دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے والے مظالم پر مذمتی بیان جاری تو کرتا ہے لیکن چین کے معاملے میں مایوس کُن رویہ اختیار کر لیتا ہے۔