منی پور میں رہ رہ کر تشدد بھڑک رہا ہے۔ اس تشدد میں اب تک 150 سے زائد افراد کی ہلاکتوں کی بات سامنے آ رہی ہے، جبکہ ہزاروں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ اسے ایک ہولناک انسانی المیہ کہا جا سکتا ہے۔ اس تشدد کے دوران کئی ایسے دردناک واقعات بھی دیکھنے میں آئے، جو انسانیت کو شرمسار کرتے ہیں۔ ریاستی حکومت پر بھی سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ الزام ہے کہ ریاستی مشینری کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ انہی سب کے بیچ منی پور تشدد کے پیچھے کی وجوہات سے متعلق کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس مضمون میں منی پور واقعے سے متعلق مکمل معلومات فراہم کی جا رہی ہے۔ DFRAC کی اس رپورٹ میں، ہم مندرجہ ذیل نکات پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
- منی پور کی تاریخ اور سماجی صورتحال
- کُکی اور میتئی کی تاریخ اور جدوجہد
- فیک اور گمراہ کُن خبروں کی جانچ-پڑتال
- تشدد کی آڑ میں ’بھارت مخالف‘ مہم
- ذات پات کے تنازعہ کو ’مذہبی‘ رنگ دینے کی کوشش
زیورِ ہند ہے منی پور:
منی پور تشدد کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ منی پور کیا ہے اور ہندوستان کے لیے یہ کس طرح اہم ہے؟ منی پور کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ’بھارت کا گہنا‘ کہا تھا۔ منی پور نو پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے، جو فطرت کے تخلیق کردہ زیور کی طرح نظر آتے ہیں۔ اسی لیے اس کا نام ’اے جویلڈ لینڈ‘ یعنی ’منی پور‘ ہے۔ سبھاش چندر بوس اور ان کی آزاد ہند فوج کی تاریخ بھی منی پور سے وابستہ ہے۔ درحقیقت منی پور کے ضلع وشنو پور کا موئرانگ علاقہ سب سے پہلے آزاد ہوا تھا۔ یہاں، سبھاش چندر بوس کی فوج INA نے آمنے سامنے کی جنگ میں برطانوی فوج کو شکست دے کر پورے علاقے کو آزاد کرا لیا تھا۔ آزاد ہند فوج کے کرنل شوکت ملک نے 14 اپریل کو موئرانگ میں ہی ترنگا پھہرایا تھا۔
Source: PIB
منی پور کا سماجی تانا بانا:
منی پور کا سماجی ڈھانچہ یہ ہے کہ یہاں کے اہم سماجی گروہ میتئی، کُکی اور ناگا ہیں۔ میتئی اکثریت میں ہیں، جو ریاست کی کل آبادی کا تقریباً 55 فیصد ہیں۔ علاوہ ازیں کُکی اور ناگا کمیونٹیز سمیت کل 35 قبائل ہیں جن کی آبادی تقریباً 35 سے 40 فیصد بتائی جاتی ہے۔ میتئی کمیونٹی اقتصادی اور سیاسی طور پر سب سے زیادہ بااثر اور طاقتور ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 60 رکنی منی پور اسمبلی میں 40 اراکین اسمبلی، میتئی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کا تعلق بھی میتئی کمیونٹی سے ہے۔ باقی 20 اراکین اسمبلی قبائلی گروہوں اور دیگر طبقات سے ہیں۔
منی پور میں نسلی گروپس کی آبادی:
منی پور کی 60 فیصد آبادی، امپھال شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں رہتی ہے۔ یہ علاقہ وسطی وادی (سینٹرل ویلی) یا امپھال ویلی کے نام سے جانا جاتا ہے، جو منی پور کے کل اراضی کا محض 10 فیصد ہے۔ یہ زمین بہت زرخیز سمجھی جاتی ہے۔ کُکی اور ناگا، وادی امپھال سے متصل پہاڑی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ منی پور کے کل رقبے کا 90 فیصد، پہاڑی علاقہ ہے، جہاں کُکی اور ناگا کمیونٹیز آباد ہیں، جبکہ میتئی کمیونٹی میدانی علاقوں میں رہتی ہے۔
میتئی پنگل یا میتئی مسلم:
کئی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ میتئی کمیونٹی میں ایک مسلم طبقہ بھی ہے جسے میتئی پنگل کہا جاتا ہے۔ یہاں پنگل کا لغوی معنی مسلم بتایا گیا ہے۔ وکیپیڈیا کے مطابق لفظ ’پنگل‘ کا استعمال تاریخی طور پر میتئی کی جانب سے تمام مسلمانوں کے لیے کیا گیا تھا۔ ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کی آبادی آٹھ فیصد سمجھی جاتی ہے۔
Source: Wikipedia
وہیں وکیپیڈیا کے مطابق کُکی قبیلے میں مسلمانوں کا ایک طبقہ وجود پا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسلم اکثریتی بنگال سے قریب ہونے کی وجہ سے کُکی مسلم کمیونٹی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ وہ کُکی مردوں کی اولاد تھے، جنھوں نے بنگالی مسلم خواتین سے شادی کی تھی۔ اس رشتے کے لیے شوہر کا مسلم ہونا ضروری تھا۔ وہ زیادہ تر ادے پور کے تریپوری شہر کے شمالی چندر پور گاؤں کے آس پاس مرکوز ہیں۔ حالانکہ ہمیں کُکی مسلمانوں کے منی پور میں رہنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
Source: Wikipedia
کب شروع ہوا تنازعہ؟
میتئی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل (شیڈول ٹرائب ’ایس ٹی) میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے لیے میتئی سَنگھ (تنظیم) کی جانب سے منی پور ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ 1949 میں بھارت کے انضمام سے قبل میتئی کمیونٹی کو ایک قبیلے کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا لیکن انضمام کے بعد ہی یہ ختم ہو گیا۔ ان کی دلیل تھی کہ میتئی کمیونٹی، اس کے آباء و اجداد کی سرزمین، روایت، ثقافت اور زبان کی حفاظت کے لیے قبیلے (ایس ٹی) کا درجہ ضروری ہے۔ اس معاملے پر منی پور ہائی کورٹ کا فیصلہ 14 اپریل 2023 کو آیا تھا۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو حکمنامہ ملنے کے چار ہفتوں کے اندر سفارش کرنے کی ہدایت دی تھی۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے منی پور میں ماحول گرم کر دیا۔ ناگا اور کُکی قبائل نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی مخالفت شروع کردی۔ منی پور کے قبائلی گروپس کا کہنا ہے کہ میتئی کمیونٹی کا معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر میتئی کو قبیلے (ایس ٹی) کا درجہ مل گیا تو ان کے لیے روزگار (نوکریوں) کے مواقع کم ہو جائیں گے، اس کے علاوہ، وہ پہاڑوں پر بھی زمینیں خریدنا شروع کر دیں گے، جس سے قبائلی گروہ حاشیے پر جا سکتے ہیں۔ ان قبائلی گروپس کی یہ بھی دلیل ہے کہ میتئی کمیونٹی کی زبان کو آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہے اور میتئی کو درج فہرست ذات (ایس سی)، دیگر پسماندہ ذات (او بی سی) اور اقتصادی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کے طفیل حاصل ریزرویشن کے فائدے بھی مل رہے ہیں۔ انہی تمام تر تنازعات کو لے کر آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین منی پور نے 03 مئی کو ریلی کا انعقاد کیا تھا، یہ ’قبائلی یکجہتی ریلی‘ امپھال سے تقریباً 65 کلومیٹر کی مسافت پر واقع چُراچاند پور میں ہوئی تھی، جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ اس دوران قبائلی گروپس کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ پھر یہ تشدد دیگر مقامات پر بھی پھیلتا چلا گیا۔
منی پور تنازعہ مذہبی یا زمینی حقوق کی لڑائی؟
’آج تک‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق منی پور تشدد کے پیچھے کی وجہ ’قبضے کی جنگ‘ سمجھا جا رہا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ ریاست کے تقریباً 55 فیصد میتئی کمیونٹی کے لوگ صرف 10 فیصد والے میدانی علاقوں میں سکونت اختیار کر سکتے ہیں، جبکہ کُکی اور ناگا کی آبادی 40 فیصد سمجھی جاتی ہے، جو ریاست کی 90 فیصد پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ آج تک کے مطابق منی پور کے قانون کے تحت، پہاڑی علاقوں میں صرف قبائلی ہی آباد ہو سکتے ہیں اور میتئی چونکہ غیر قبائلی ہیں، اس لیے وہ پہاڑی علاقوں میں نہیں آباد ہو سکتے ہیں۔
Source: AajTak
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہاں تنازعہ زمین پر حقوق کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق-’تصادم کی وجہ یہی ہے کیونکہ میتئی، کُکی علاقوں میں زمین نہیں خرید سکتے اور اب وہ بھی قبائلی (ایس ٹی) کا درجہ چاہتے ہیں۔ 28 لاکھ کی آبادی میں میتئی کی اکثریت، وادی میں رہتی ہے جبکہ کُکی، چار پہاڑی اضلاع میں آباد ہیں‘۔
Source: BBC
وہیں کئی دیگر میڈیا رپورٹس میں تشدد کی وجوہات میں زمین پر حق، قبائلی کا درجہ لکھا گیا ہے۔
منی پور تشدد کے پیچھے افیم کی کھیتی؟
منی پور میں تشدد کے اہم وجوہات میں سے ایک افیم کی کھیتی کو سمجھا جا رہا ہے۔ کئی میڈیا رپورٹس میں افیم کی کاشت کا ذکر ہے۔ یہ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ ریاستی حکومت افیم کی کاشت کے خلاف مسلسل کاروائی کر رہی ہے، جس کا تعلق زیادہ تر کُکی کمیونٹی سے ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق– منی پور میں بنیادی کشیدگی مختلف عوامل کے پیچیدہ عمل سے پیدا ہوئی ہے، جن میں سے ایک حالیہ برسوں میں نشہ آور ادویات کے خلاف کاروائی ہے۔ وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت، جو کہ خود میتئی ہیں، نے افیم کی کاشت کو نشانہ بناتے ہوئے ایک متنازعہ مہم شروع کی۔ 2017 سے حکومت نے 18,600 ایکڑ سے زیادہ افیم کے کھیتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر کُکی کا علاقہ ہے۔
وہیں کئی دیگر میڈیا رپورٹس میں بھی تشدد کی وجوہات میں سے افیم کی کھیتی کا ذکر کیا گیا ہے۔
منی پور تشدد پر فیک نیوز:
منی پور تشدد کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی طرح کی گمراہ کُن اور فیک نیوز بھی شیئر کی جا رہی ہیں۔ DFRAC ٹیم نے ان فیک نیوز کا فیکٹ چیک کیا ہے۔ کئی فیکٹ چیک کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
فیکٹ چیک: (1)
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کرکے دعویٰ کیا گیا کہ منی پور میں پولیس کی مخالفت کے لیے الگ سے برہنہ خواتین کی ٹیم بنائی گئی ہے، وہ ننگی ہو کر پولیس کو کھدیڑ رہی ہیں۔
وائرل ویڈیو کا منی پور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ویڈیو اتر پردیش میں بلدیاتی انتخابات کے دوران کا ہے، جب آزاد امیدوار سونو کِنر کے حامیوں نے چندولی ضلع میں بلدیہ کے چیئر مین کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے ہنگامہ کیا تھا۔ فیکٹ چیک، نیچے دیے گئے لنک پر کلک کر کے بالتفصیل پڑھا جا سکتا ہے۔
فیکٹ چیک: (2)
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اس دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے کہ منی پور میں 300 سال پرانے چرچ کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔
جب وائرل ویڈیو کا فیکٹ چیک کیا گیا تو نتیجہ سامنے آیا کہ یہ ویڈیو منی پور کا نہیں بلکہ فرانس میں ہوئے تشدد کے دوران کا ہے۔
فیکٹ چیک: (2)
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک خاتون کے ساتھ مارپیٹ ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یوزرس کا دعویٰ ہے کہ اس عیسائی خاتون کو ’آؤٹ مودی‘ چلانے کے سبب قتل کر دیا گیا۔
ایک یوزر نے لکھا،’ دنیا کو ہندو آتنک کے بارے جاننے کی ضرورت ہے‘۔ جبکہ #مودی دنیا بھر کا دورہ کرتے ہیں اور ہندو ڈیسپورا کی جانب سے ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ بھارت میں واپس، حکومت کی جانب سے مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کو منظم طور پر مارا جا رہا ہے۔ صرف آؤٹ مودی چلانے پر اس غریب عیسائی خاتون کو قتل کر دیا گیا!‘۔
Source: Twitter
فیکٹ:
وائرل ویڈیو بھارت کا نہیں بلکہ میانمار کا ہے اور یہ واقعہ فروری 2022 کا ہے، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہے۔
تشدد کی آڑ میں ’بھارت مخالف‘ مہم:
منی پور واقعہ کو مذہبی رنگ دے کر پاکستانی یوزرس نے کافی ٹویٹ کیے ہیں۔ ان یوزرس نے منی پور کی نسلی لڑائی کو مذہبی اینگل دیتے ہوئے اسے عسائیوں (کُکی-ناگا) پر ہندوؤں (میتئی) کے مظالم کے طور پر پھیلایا ہے، جبکہ کئی میڈیا رپورٹس میں یہ سامنے آ چکا ہے کہ یہ مذہبی تشدد نہیں ہے اور تشدد کے شروع ہونے کی اہم وجہ زمین اور حقوق کے لیے جدوجہد ہے۔ پاکستانی یوزرس نے بڑی ہی ہوشیاری سے منی پور تشدد کے ساتھ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کو بھی جوڑ دیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے دو تصویروں کا ایک کولاج بھی شیئر کیا ہے۔ یہاں آپ کولاج کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
کولاج کا فیکٹ چیک:
یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں وائرل کولاج میں جو تصویر 1984 کے سکھ مخالف تشدد کی بتائی جارہی ہے، وہ دراصل بھارت کی نہیں ہے۔ یہ تصویر 1983 میں سری لنکا میں تمل بولنے والوں کے خلاف ہوئے تشدد کی ہے جسے سری لنکا کی خانہ جنگی (سول وار) بھی کہا جاتا ہے۔ اسے ’بلیک جولائی‘ (Black July) کا نام دیا گیا ہے۔
Source: Wikipedia
یہاں پاکستانی یوزرس کی جانب سے پوسٹ کیے گئے فیک فوٹو کا کولاج پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں گوگل پر منی پور سرچ ٹرینڈ:
’منی پور تشدد‘ پر پاکستان کا گوگل ٹرینڈ دکھاتا ہے کہ یہ کی-ورڈ یہاں کس قدر مقبول تھا۔ یہ 18 جولائی کو شروع ہوا اور سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر ایام میں بھی منی پور کو پاکستان میں سرچ کیا گیا، جسے نیچے دیے گئے گراف میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مزید برآں، پاکستان میں منی پور کے بارے میں سب سے زیادہ سرچ اسلام آباد میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا تھا۔
’منی پور تشدد‘ کے بارے میں سب سے زیادہ سرچ، بھارت میں کیا گیا۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، قطر، کویت اور سنگا پور سے بھی اسی کی-ورڈ پر بڑی تعداد میں سرچ کیا گیا ہے۔
وہیں بھارت مخالف مہم چلانے والے کچھ پاکستانی یوزرس کا ٹویٹ یہاں دیا جا رہا ہے-
پاکستان کے مدثر (@MudassarJatta) نامی یوزر نے لکھا،’1984 میں بھارتی حکومت کے غنڈو نے سکھ خواتین پر جو مظالم کیے اور اتنے برس گذر جانے کے باوجود انصاف نہیں ملا ہے۔ اور آج پھر منی پور میں ہندو غنڈے عیسائی خواتین کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں۔ جمہوریت کہاں ہے؟‘ (اردو ترجمہ)
Source: Twitter
ٹویٹر پر پراؤڈ پاکستانی (@S_kamikhan) نامی یوزر نے لکھا–’# منی پور میں ہندوؤں کی جانب سے عیسائی خواتین کو برہنہ کرکے گھمایا گیا، یہ انتہائی شرمناک اور قابل نفرت ہے۔‘ (اردو ترجمہ)
Source: Twitter
لاہور، پاکستان کی باشندہ، عنایہ اعجاز (@InayaAjaz) نامی یوزر نے لکھا–’1984 میں بھارتی حکومت کے غنڈو نے سکھ خواتین پر جو مظالم کیے اور اتنے برس گذر جانے کے باوجود انصاف نہیں ملا ہے۔ اور آج پھر منی پور میں ہندو غنڈے عیسائی خواتین کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں۔ جمہوریت کہاں ہے؟‘ (اردو ترجمہ)
Source: Twitter
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ملازم ایم سفیان بصرہ (@msufyanbasra) نامی یوزر نے لکھا،’1984 میں ہندو غنڈوں کے ذریعے سکھ خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم، اور ساتھ ہی اتنے برسوں تک انصاف کی عدم فراہمی، انتہائی تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج منی پور میں ہندو غنڈو کی جانب سے عیسائی خواتین کے خلاف اسی طرح کی حرکتیں کی جا رہی ہیں‘۔
Source: Twitter
منی پور تشدد کو مذہبی اینگل دینے کی کوشش:
سوشل میڈیا پر یوزرس نے منی پور میں نسلی تشدد کو مذہبی اینگل دے کر پوسٹ شیئر کیا ہے۔ متاثرہ افراد کی مذہبی شناخت عیسائی کُکی خواتین کے طور پر ذکر کرکے یہ بتانے کی کوشش ہے کہ تشدد مذہبی، عدم برداشت یا نفرت سے متاثر ہو سکتا ہے۔ انڈین امریکن مسلم کونسل (IAMC) نے اس واقعہ کو مذہبی اینگل دے کر پوسٹ شیئر کیا ہے۔
Source: Twitter
اشوک سوین نے منی پور کے حوالے سے پوسٹ شیئر کیا ہے۔ ان کا ٹویٹ فرقہ وارانہ لہجے کے ساتھ منی پور کی صورتحال کا حوالہ دیتا ہے۔ اس ٹویٹ میں لمبے عرصے سے جاری تشدد، اموات کی تعداد (زیادہ تر کُکی عیسائی کمیونٹی بتانا)، کئی چرچ کو آگ لگانا اور بڑی تعداد میں ایک مخصوص مذہبی گروہ کے افراد کے نقلِ مکانی کی بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کُکی خواتین کو برہنہ گھمانے اور میتئی ہجوم کی جانب سے جنسی تشدد کا ذکر کمیونل اینگل سے کیا گیا ہے۔
Source: Twitter
ابو حفصہ نامی یوزر کا ٹویٹ منی پور کے واقعے کو دو فریق کُکی (عیسائی) اور میتئی (ہندو) کے طور پر پیش کرتے ہوئے اسے کمیونل اینگل دیتا ہے۔
Source: Twitter
ساؤتھ ایشیا انڈیکس (South Asia Index) کے ٹویٹ میں منی پور تشدد کے پیچھے مذہبی کشیدگی کو ظاہر کرنے والے کمیونل اینگل کو دکھایا گیا ہے۔ قبائلی جد و جہد کو دو مذہبی (عیسائی اور ہندو) کے بیچ لڑائی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اس ٹویٹ میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے میتئی کمیونٹی کو حمایت مل رہی ہے۔
Source: Twitter
عبداللہ العمادی (@Abdulla_Alamadi) کا ٹویٹ منی پور پر مرکوز ایک واضح فرقہ وارانہ لہجہ اور ہندوؤں کی منفی تصویر کشی پر روشنی ڈالتا ہے۔ بلقیس بانو کی کہانی سے موازنہ، کمیونل اینگل کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ آخر میں ’اقلیت خطرے میں‘ بیانیہ متذکرہ واقعہ کی بابت اقلیتی کمونٹیز کے خطرے میں ہونے کی کہانی پر زور دیتا ہے۔ مجموعی طور پر، پیراگراف میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کرنے والے فرقہ وارانہ پہلو شامل ہیں۔
Source: Twitter
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں مذکورہ واقعے میں ممکنہ فرقہ وارانہ اینگل دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں منی پور میں نسلی تشدد کو بیان کیا گیا، جو کہ عیسائی کُکی اور زیادہ تر ہندو میتئی افراد سے متعلق جھگڑے سے شروع ہوا تھا۔
اس رپورٹ میں ایسا لگتا ہے کہ تشدد کا واقعی فرقہ وارانہ اینگل ہے، کیونکہ اس میں زمین کے حقوق اور سرکاری نوکریوں سے متعلق مسائل پر مختلف ذات کے گروپ (عیسائی کُکی اور ہندو میتئی) کے بیچ جھڑپیں شامل ہیں۔ تشدد اور جھڑپوں کے نتیجے میں 130 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور لڑنے والے دھڑوں کی جانب سے مسلح ملیشیا کی تشکیل ہوئی ہے۔ ویڈیو میں بیان کردہ حملے کے متاثرین کی شناخت منی پور کی ایک قبائلی تنظیم کُکی-زومی کمیونٹی کے اراکین کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ حقیقت کہ تشدد نسلی بنیادوں پر ہو رہا ہے، تنازعہ کے فرقہ وارانہ پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔
Source: Washington Post
وہیں الجزیرہ (@AJEnglish) کا آرٹیکل، منی پور کے واقعے کو واضح فرقہ وارانہ لہجے کے ساتھ اجاگر کرتا ہے۔ آرٹیکل میں اس واقعے کو ہندو میتئی اور عیسائی کُکی زومی قبائل کے درمیان مہلک نسلی تشدد قرار دیا گیا ہے۔
Source: AlJazeera
نتیجہ:
منی پور میں تشدد کے پیچھے کی بنیادی وجہ کے طور پر زمین کے حقوق اور قبائلی حیثیت کی بات سامنے آئی ہے۔ اس تشدد کے پس منظر میں مذہبی تنازعہ جیسا کوئی اینگل نہیں ہے۔ ہمیں اس طرح کی کوئی میڈیا رپورٹ نہیں ملی، جس میں تشدد کے پیچھے مذہبی وجوہات کا ذکر ہو۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر منی پور کے بارے میں کئی طرح کے فیک اور گمراہ کُن نیوز پھیلائے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان اور مغربی میڈیا کی جانب سے اس واقعے میں یہ تناظر ذکر کیا جا رہا ہے کہ یہاں عیسائی کمیونٹی اور ہندو کمیونٹی کے مابین تشدد ہے۔ وہیں پاکستانی یوزرس اس واقعہ کے بہانے بڑی ہوشیاری سے سکھ مخالف فسادات کے واقعات کو بھی اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ماحول سازگار ہو کہ بھارت میں اقلیتی طبقات محفوظ نہیں ہیں۔