سوشل میڈیا پر ایک دعویٰ وائرل ہو رہا ہے کہ منی پور میں ہجوم کے ذریعے دو کُکی خواتین کو برہنہ کرکے گھمانے اور کھیت میں لے جا کر گینگ ریپ کرنے کا کلیدی ملزم ’عبدل خان‘ ہے، جسے منی پور پولیس کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
رشی باگری نامی ویریفائیڈ یوزر نے منی پور پولیس کے ایک ٹویٹ کو کوٹ ری-ٹویٹ کرکے لکھا،’منی پور معاملے کے کلیدی ملزم عبدل خان کو منی پور پولیس نے گرفتار کر لیا ہے‘۔
Source: Twitter
منی پور پولیس کی جانب سے کیے گئے ٹویٹ میں بتایا گیا تھا کہ محمد اِیبُنگو عرف عبد الحلیم کو آج امفال ایسٹ ڈسٹرکٹ پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
سدرشن نیوز کے سینئر صحافی ابھے پرتاپ سنگھ نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا،’منی پور معاملے میں بڑی خبر۔ پولیس نے کلیدی ملزم عبدل خان کو گرفتار کر لیا۔ عبدل میانمار کا روہنگیا باشندہ بتایا جا رہا ہے‘۔
Tweet Archive Link
اَکشِت سنگھ نامی یوزر نے ٹویٹ کیا،’منی پور معاملے کے کلیدی ملزم عبدل خان کو پولیس نے گرفتار کیا۔ وہ میانمار کا ایک غیر قانونی مہاجر ہے۔ وہ روہنگیا ہے۔ یہ روہنگیا درندے (دانَو) ہیں اور قطعی قابلِ رحم نہیں ہے‘۔ (اردو ترجمہ)
Tweet Archive Link
مسٹر سنہا نے ٹویٹر پر دعویٰ کیا کہ-’منی پور وائرل ویڈیو معاملے میں منی پور پولیس نے عبد الحلیم کو گرفتار کیا۔ یہ وہ وقت ہے جب سیکولر لوگ اس کے بارے میں دھیرے دھیرے بات کرنا بند کر دیں گے‘۔
Source: Twitter
ان کے علاوہ بی جے پی کے رہنما تیجندر پال سنگھ بگّا نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے،’منی پور معاملے کے کلیدی ملزم عبدل خان کو پولیس نے گرفتار کیا‘۔
Tweet Archive Link
غورطلب ہےکہ یہ فیک نیوز آگ کی طرح تب پھیلنی شروع ہوئی، جب نیوز ایجنسی ANI نے 20 جولائی کو رات میں تقریباً 10 بجے ایک ٹویٹ کیا۔ اس ٹویٹ میں منی پور پولیس کے حوالے سے لکھا گیا،’پیپلس ریولیوشنری پارٹی آف کانگلیپاک پرو کے ایک کیڈر محمد ایبُونگا عرف عبد الحلیم (38) کو امفال مشرق ضلع کی پولیس نے منی پور وائرل ویڈیو معاملے میں گرفتار کیا ہے۔ تھوبل ضلع کے نونگپوک سیکمائی پولیس اسٹیشن کے تحت درج کیے گئے، اغوا اور گینگ ریپ کے سنگین جرم کے کل تین کلیدی ملزموں کو آج گرفتار کیا گیا ہے‘۔
حالانکہ بعد میں اے این آئی نے اس ٹویٹ کو ڈِلیٹ کر دیا۔ دریں اثنا، منی پور جنسی تشدد کیس کے کلیدی ملزم کے طور پر سوشل میڈیا پر محمد حلیم/محمد خان کا نام وائرل ہو چکا تھا۔ یہ نام بھی ٹویٹر پر ٹرینڈ ہونے لگا تھا۔
فیکٹ چیک:
ٹیم DFRAC نے کچھ کی-ورڈ کی مدد سے گوگل سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں منی پور پولیس کی طرف سے 20 جولائی کو جاری کردہ ایک پریس نوٹ ملا۔
اس پریس نوٹ میں اس دن، مختلف معاملات میں پولیس کی جانب سےکی گئی کارروائی اور تیاریوں کے بارے میں معلومات دی گئی تھی۔ اس پریس نوٹ کے دوسرے نکتے میں جنسی تشدد کے معاملے میں مزید تین اہم ملزمان کی گرفتاری کی اطلاع دی گئی ہے۔ تھوبل ضلع کے نونگ پوک سیکمائی پولیس اسٹیشن کے تحت درج اغوا اور گینگ ریپ کے معاملے میں مزید تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس طرح اس معاملے میں اب تک چار ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
Source: Twitter
قبل ازیں 20 جولائی کی صبح منی پور پولیس نے اس معاملے میں 32 سالہ کھیرم ہیراداس کو تھوبل ضلع سے گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس کی شناخت وائرل ویڈیو سے ہوئی تھی۔
اسی پریس نوٹ کے پوائنٹ 4 میں، کسی دوسرے معاملے میں امفال ایسٹ ڈسٹرکٹ پولیس کے ذریعے امپھال ایسٹ کے رہائشی 38 سالہ عبد الحلیم کی گرفتاری کے بارے میں اطلاع دی گئی ہے۔
منی پور پولیس کی جانب سے بعد میں جنسی تشدد کے معاملے میں گرفتار کیے گئے کھیرم ہیراداس کے علاوہ تین دیگر ملزموں کے نام جاری کیے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ نام؛ ارون سنگھ، جیون اِلانگبم اور ٹومبا سنگھ ہیں۔ واضح ہے کہ منی پور پولیس کی جانب سے جنسی تشدد کے معاملے میں عبد الحلیم کو ملزم نہیں بنایا گیا ہے۔
وہیں خبر رساں ادارہ ANI نے بھی 21 جولائی کو صبح 10.30 بجے کے قریب 12 گھنٹے بعد گمراہ کُن نیوز والے اپنے ٹویٹ پر صفائی دی ہے کہ-’اے این آئی کی جانب سے گذشتہ شام کو منی پور پولیس کی جانب سے کی گئی گرفتاریوں کے سلسلے میں انجانے میں ایک ٹویٹ کیا گیا۔ یہ پوسٹ منی پور پولیس کی جانب سے کیے گئے ٹویٹس کو غلط ڈھنگ سے پڑھنے کے سبب ہوا۔ وائرل ویڈیو سے متعلق واقعات میں کی گئی گرفتاریوں سے وابستہ پہلے کے ایک ٹویٹ کے سبب بھرم پیدا ہو گیا تھا‘۔
Tweet Archive Link
خبر رساں ادارے کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ کچھ دیر بعد ہی غلطی کا احساس ہوتے ہی ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ ایک ترمیم شدہ ٹویٹ فوری طور پر پوسٹ کیا گیا۔ ایجنسی نے اپنی غلطی پر اظہارِ افسوس کیا۔
نتیجہ:
زیرِنظر DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ منی پور جنسی تشدد سے متعلق وائرل ویڈیو کا کلیدی ملزم عبد الحلیم نہیں بلکہ کھیرم ہیراداس ہے۔ اس معاملے میں کوئی ہندو مسلم اینگل ہے ہی نہیں۔ عبد الحلیم کو ایک دیگر معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے، لہٰذا رشی باگری اور بی جے پی کے رہنما بگّا سمیت دیگر سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہے۔