سوشل میڈیا پر 01:32 منٹ کا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ بورے کی تھیلوں میں نقد، جمع کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا یوزرس ویڈیو کو اس دعوے کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں کہ یہ منظر بھارت کی مساجد کا ہے۔
ٹویٹر پر ایک یوزر نے اس ویڈیو کے کیپشن میں لکھا،’دیکھیے! مسجدوں میں کتنا پیسہ آتا ہے، اس پیسے پر ٹیکس نہیں ہے، صرف مندر کے پیسے پر ٹیکس لگتا ہے، حکومت مندر کے پیسوں سے مولویوں کو تنخواہ اور پینشن دیتی ہے، مسجد میں دیا گیا عطیہ ہندوؤں کے خلاف جہاد میں استعمال ہوتا ہے۔ ہندو آنکھ بند کیے ذات پات میں جی رہا ہے‘۔
Source:Twitter
ایک یوٹیوب چینل نے اس کیپشن کے ساتھ ویڈیو اپلوڈ کیا ہے،’دیکھیے، مسجدوں میں کتنا پیسہ آتا ہے، اس پیسے پر ٹیکس نہیں ہے، صرف مندر کے پیسوں پہ ٹیکس‘۔
Source: Youtube
فیکٹ چیک:
وائرل ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC کی ٹیم نے ویڈیو کو غور سے دیکھا اور پایا کہ بوری پر لکھی گئی زبان بنگالی ہے اور کرنسی بھی بنگلہ دیشی (ٹکا) ہے۔
علاوہ ازیں، مزید تفتیش میں DFRAC کی ٹیم کو ATN بنگلہ نیوز نامی ایک بنگلہ دیشی یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کیا گیا وہی ویڈیو ملا۔ ویڈیو کے ڈسکرپشن میں بتایا گیا ہے،’کشور گنج کی تاریخی پگلہ مسجد کے چندہ باکس سے 19 بورے ٹکے (بنگلہ دیشی کرنسی) ملے ہیں۔ ابھی ان پیسوں کا حساب-کتاب کا کام چل رہا ہے۔ عطیہ کی پیٹی میں بنگلہ دیشی ٹکے کے علاوہ ڈالر، پاؤنڈ، ریال اور سونے کے زیورات سمیت بہت سی غیرملکی کرنسی بھی برآمد ہوئیں‘۔
نتیجہ:
زیرِ نظر DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ گمراہ کُن ہے کیونکہ پیسوں کی بوریاں، بھارت کی مسجدوں میں نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے کشور گنج واقع تاریخی پگلہ مسجد میں پائے گئے تھے۔