پاکستان کشمیر میں بدامنی پھیلانے کی خاطر ہر گھڑی کمر بستہ رہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر، اس نے اب سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ وہ ہر وقت سوشل میڈیا پر غلط معلومات(Misinformation) پھیلاتا رہتا ہے۔
Source: Twitter
حال ہی میں عُظمان کشمیری نامی ایک ٹویٹر یوزر نے کچھ احتجاج کناں خواتین کی تصویریں شیئر کیں اور دعویٰ کیا کہ کشمیر میں قتل عام ہونے والا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا،’بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لیے نسل کُشی کا الرٹ: جینوسائیڈ واچ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لیے نسل کُشی کا الرٹ جاری کر رہا ہے۔ پانچ اگست 2019 کو بھارت کے صدر نے دفعہ 370 اور 35اے کے تحت بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے اسپیشل اسٹیٹس کو منسوخ کر دیا۔
Source: Twitter
علاوہ ازیں ایک ٹویٹ ناز خان کشمیری نے بھی کیا۔ انہوں نے بھی وہی تصویر، پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لیے قتل عام کا انتباہ، جینوسائیڈ واچ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لیے نسل کُشی کا الرٹ جاری کر رہا ہے۔ پانچ اگست 2019 کو بھارت کے صدر نے دفعہ 370 اور 35اے کے تحت بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو رد کر دیا تھا۔
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے دعوے سے متعلق معلومات یکجا کیں۔ ٹیم کو کشمیر پر ایک رپورٹ ملی جو امریکہ کے ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن نے جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ 15 اگست 2019 کو جاری کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے– کشمیر، بھارت میں نسل کشی کی وارننگ۔
Source: humanrightscommission.house.gov
رپورٹ کے شروع میں لکھا گیا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لیے نسل کُشی کی وارننگ: جینوسائیڈ واچ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لیے نسل کشی کا الرٹ جاری کر رہا ہے۔ پانچ اگست 2019 کو، بھارت کے صدر نے دفعہ 370 اور 35اے کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی ریاست کا درجہ منسوخ کر دیا۔
Source: Genocide Watch
علاوہ ازیں ہمیں یہ رپورٹ Genocide Watch کی ویب سائٹ پر بھی ملی۔ ڈاکٹر گریگوری ایچ اسٹینٹن کی اس رپورٹ کو 15 اگست 2019 کو ویب سائٹ پر پبلش کیا گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ رپورٹ اور ٹویٹ میں شیئر کی گئی تصویریں اور مواد یکساں ہیں۔
نتیجہ:
زیرِ نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ کشمیر میں نسل کشی کی وارننگ کا دعویٰ گمراہ کُن ہےکیونکہ یہ وارننگ جینوسائیڈ واچ نے 15 اگست 2019 کو جاری کی تھی۔ وہیں کشمیر میں جینوسائیڈ واچ کے الرٹ کے بعد اب تک کوئی تشدد دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔