سوشل میڈیا پر اخبار کا ایک تراشہ شیئر کیا جا رہا ہے، جس میں خبر کو ہندی میں سرخی دی گئی ہے کہ ’ہندو عورت اور مسلمان مرد کی شادی غیر قانونی: سپریم کورٹ‘۔
سناتنی نامی ایک ٹویٹر یوزر نے اسے شیئر کرتے ہوئے کیپشن دیا،’پیار کے نام پر نکاح کرنے والی ہندو لڑکیاں، بالآخر رkhaiل ہی بنتی ہے۔ اور کچھ کے تو ماں باپ خود ہی جسم فروشی کے لیے بھیج دیتے ہے۔ ایسے سِکلَرس خود اپنا ستیاناش تو کراتے ہی ہے، ہندو سماج کا نقصان الگ سے کر جاتے‘۔
Tweet Archive Link
اس ٹویٹ کو 144 بار ری ٹویٹ کیا گیا، جبکہ اسے 209 یوزرس نے لائک کیاہے۔
فیکٹ چیک:
وائرل اخبار کے تراشے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے اس تناظر میں گوگل پر کچھ کی-ورڈ کی مدد سے سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں کئی میڈیا ہاؤسز کی جانب سے پبلش، نیوز رپورٹس ملے۔
اخبار امر اُجالا کی ویب سائٹ پر سرخی،’ہندو عوارت اور مسلمان مرد کی شادی بے ضابطہ، غیر قانونی: سپریم کورٹ‘ کے تحت 23 جنوری 2019 کو پبلش نیوز ملی۔
خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے جائیداد کے تنازعہ پر سماعت کرنے کے بعد حکم دیا کہ ہندو عورت اور مسلمان مرد کی شادی نہ تو باقاعدہ ہے اور نہ ہی قانونی، تاہم اس شادی سے پیدا ہونے والی اولاد قانونی ہے اور وہ اپنے والد کی جائداد میں حصہ پانے کی حقدار ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے کہا کہ قانوناً اس طرح کی شادی میں خاتون الاؤنس پانے کی حقدار تو ہے لیکن اسے اپنے شوہر کی جائداد میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ اگر کسی سبب اس کے مسلم شوہر کی موت ہو جاتی ہے، وہ چاہے تو اپنے شوہر کی بیوہ کے نام سے رہ سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیاس اور وَلِمَّا کے بیٹے شمس الدین نے اپنے والد کی وفات کے بعد ان کی جائیداد پر دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب شمس الدین کے کزن (عم زاد بھائی)، جائیداد میں حصہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ان کی والدہ (شادی کے وقت) ہندو تھیں اور الیاس کے ساتھ غیر قانونی شادی ہوئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وَلِمَّا نے شادی کے دوران مذہب تبدیل نہیں کیا تھا، اس لیے شمس الدین جائیداد حاصل کرنے کا حقدار نہیں ہے۔
وہیں ٹائمس ناؤ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنچ نے کہا،’ایک صفر شادی وہ ہے جو اپنے آپ میں غیر قانونی ہے، اسی طرح کی شادی کے خلاف ممانعت، مستقل اور مطلق ہے۔ ایک غیر قانونی شادی کو ایسی شادی کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو بذات خود غیر قانونی نہیں ہے، لیکن کسی اور چیز کے لیے غیر قانونی ہے… (مثلاً گواہ کی عدم موجودگی)‘۔
نتیجہ:
زیرِ نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے یہ واضح ہے کہ اخبار کا وائرل تراشہ، حال-فی الحال کی خبر نہیں ہے بلکہ یہ جائداد کے تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے 2019 کی خبر ہے۔ ہندو عورت اور مسلمان مرد کی شادی کے حوالے سے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ، گمراہ کن ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہندو عورت اور مسلمان مرد کی شادی ہو سکتی ہے لیکن اسے قانونی نہیں مانا جائے گا لیکن شادی سے دونوں کا بچہ جائز ہے اور وہ بھی اپنے باپ کی جائیداد کا قانونی طور پر حصہ دار ہوگا۔