رمضان کا مقدس مہینہ قریب ہے۔ اس مہینے میں مسلمان روزہ رکھنے کے ساتھ ہی تراویح کی نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ-فطرہ ادا کرتے ہیں۔ ایک دعویٰ وائرل ہو رہا ہے، جس کے مطابق سعودی عرب کے اسلامی امور کے وزیر عبد اللطیف الشیخ کی جانب سے جاری تین مارچ 2023 کو 10 نکاتی دستاویز کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ رمضان کے دوران مساجد میں لاؤڈ اسپیکر نہیں بجایا جا سکے گا۔کوئی بھی شخص نماز کا سوشل میڈیا یا لائیو ٹیلی کاسٹ نہیں کرے گا۔ جب تک رمضان ہے، تب تک مساجد میں کوئی بھی افطار نہیں ہوگا۔ رمضان کے دوران کوئی بھی شخص اپنے بچوں کو مسجد میں لے کر نہیں آئے گا۔ اعتکاف کے دوران آئی ڈی کے بغیر مسجد میں انٹری (داخلہ) نہیں ملے گی وغیرہ۔
اس دعوے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس گائیڈ لائن سے علماء ناراض ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اسے واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے اسلام کی بنیاد کمزور ہوتی ہے، لیکن سعودی عرب نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اسے اسلام کے مفاد میں قرار دیا۔
کئی دیگر نیوز پورٹل نے بھی اسی طرح کے دعوے کے تحت خبر شائع کی ہے۔
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے سعودی عرب کی اسلامی امور کی وزارت کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ کو چیک کیا۔ ہمیں اسلامی امور کے وزیر عبداللطیف بن عبدالعزیز کی جانب سے جاری کردہ 10 نکات پر مبنی رہنما خطوط(گائیڈلائن)کی ایک کاپی ملی۔ اس گائیڈ لائن میں اذان اور نماز وقت پر ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اس گائیڈلائن کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ام القریٰ کیلنڈر کے مطابق نماز کے لیے اذان کے تئیں پابند عہد اور ماہِ صیام ’رمضان‘ میں متعینہ وقت پر عشاء کی نماز کے لیے اذان اور اذان کے بعد اقامت طے شدہ وقت پر ہو۔
چھٹے پوائنٹ میں کہا گیا ہے کہ نماز کی براہ راست نشریات کے لیے مساجد میں کیمرے لگانا ممنوع ہے۔ ساتویں نکتے کے مطابق اعتکاف کے لیے امام ذمہ دار ہوگا، وہ آئی ڈی کارڈ دیکھ کر ہی لوگوں کو اعتکاف میں بیٹھنے کی اجازت دے۔
آٹھویں نکتے میں کہا گیا ہے کہ افطار کے لیے کسی قسم کا چندہ نہ کریں۔ نویں نکتے کے مطابق افطار کرنے کے لیے متعین جگہ پر ہی افطار کریں، یہ امام اور مؤذن کی ذمہ داری کے تحت ہے کہ جو افطار کا اہتمام کرے، وہی صفائی بھی کرے۔ آخری پوائنٹ میں کہا گیا ہے کہ چھوٹے بچوں کو مسجد لانے سے بچیں تاکہ سکون (خشوع-خضوع) کے ساتھ عبادت کر سکیں۔
اس گائیڈ لائن میں کہا گیا ہے کہ اذان، نماز اور افطار کو وقت پر کیا جائے، اس میں کہیں بھی ایسا کچھ نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکےکہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان اور نماز کو بَین کر دیا گیا ہے۔
یہ گائیڈلائن پہلے بھی جاری کی جاتی رہی ہے۔ اس سے پہلے 2021 میں بھی اس گائیڈلائن سے متعلق اسی طرح کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
گلف نیوز کے مطابق تب کہا گیا تھاکہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کی سطح ویلیوم کے ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اور مساجد میں آؤٹ ڈور لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف اذان یا اذان تک محدود ہونا چاہیے۔ وہیں بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق عام نمازوں میں صرف بیرونی لاؤڈ اسپیکر پر اذان اور اقامت کے لیے تکبیر کہی جا سکتی ہے جبکہ بیرونی لاؤڈ اسپیکر پر مکمل نماز یا خطبہ نہیں دیا جا سکتا۔
نتیجہ:
زیرِ نظر DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ وائرل دعویٰ گمراہ کُن ہے کیونکہ سعودی عرب حکومت کی جانب سے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر پابندی نہیں عائد کی گئی ہے۔