سوشل میڈیا پر ایک تصویر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ متذکرہ تصویر میں خون میں لت پت بچی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سارہ نام کی یہ بچی ایران کی ہے۔ حجاب نہ پہننے پر بچی کو شدید زدوکوب کیا گیا ہے۔
اے بی پی نیوز کی اینکر شوبھنا یادو نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس تصویر کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ایران میں حجاب نہ پہننے پر رضیہ اور اس کے بھائیوں نے سارہ نام کی اس بچی کو بری طرح مارا ہے۔ اتنی چھوٹی سی بچی حجاب یا اس کے طور طریقے سیکھ سکتی ہے کیا؟ شرم آتی ہے ایسی سوچ والے لوگوں پر۔
علاوہ ازیں کئی ویریفائیڈ یوزرس نے بھی اس تصویر کو اسی طرح کے ملتے جلتے دعوے کے ساتھ شیئر کیا ہے، جن میں اسرائل @emilykschrader، ایران سے @AlinejadMasih، @iranianknows اور کینیڈا سے @MikeYami_ شامل ہیں۔
وہیں بھارت میں اوپ انڈیا، اور آئی بی ٹائمس نے بھی اس پر رپورٹ پبلش کی ہے، جس میں کیا گیا ہے کہ بچی کو حجاب نہ پہننے پر پیٹا گیا۔
فیکٹ چیک
وائرل دعوے کا فیکٹ چیک کرنے کے لیے DFRAC ٹیم نے وائرل تصیور کو انٹرنیٹ پر ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں فارسی نیوز پورٹل صاحب خبر اور برترین ہا پر ایسی ہی ایک تصویر ملی۔
فارسی میں تحریر اس رپورٹ میں اصفہان پولیس کے حوالے سے بتایا گیا کہ خنیہ محلے میں اسکول بند ہونے کے بعد دو طالبات کے مابین ہوئے جھگڑے کے بعد ایک طالبہ کی والدہ اپنے بچے کی دفاع میں بحث کرنے لگی اور اس بچی کو دھکا دیا۔ ماں کو کل دوپہر پولیس حکام کی موجودگی میں گرفتار کیا گیا اور اب ضمانت پر رہا ہے۔
اس خبر کی تصدیق کے لیے ہم نے فارسی کی-ورڈ کی مدد سے مزید متعلقہ خبروں کو بھی ملاحظہ کیا۔ اس دوران ہمیں ایران کی نیوز ایجنسی مہر نیوز پر بھی یہی رپورٹ ملی، جس کے مطابق صوبہ اصفہان کے محکمہ تعلیم_رابطہ عامہ کے سربراہ جلال سلمانی کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ واقعہ دو طالبات کے مابین محض ایک جھگڑا تھا، جو اسکول کے باہر اور گھر لوٹتے وقت ہوا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان دونوں طالبات کے مابین پیدا شدہ کشیدگی کا حجاب کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور سائبر اسپیس میں جو پبلش کیا گیا ہے وہ جھوٹ ہے۔
علاوہ ازیں اصفہان کے عوامی اور انقلابی پراسیکیوٹر سید محمد موسٰوِین نے ایک لائیو ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا،’اس واقعہ کے لیے عدالت میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے اور اس واقعہ کی تفتیش، ایجنڈے میں ہے‘۔
انہوں نے کہا،’ ابتدائی تفتیش کے بعد یہ پایا گیا کہ اس کشیدگی کا سبب طالبات کے مابین ذاتی مسائل تھے اور بد قسمتی سے اس جھگڑے میں خاندانوں کے جذبات بھی در آ گئے‘۔
انہوں نے مزید کہا،’ سائبر اسپیس میں جو پبلش کیا گیا ہے, وہ سچ نہیں ہے۔ اس واقعہ کا حجاب سے کوئی تعلق نہیں، حملہ آور ضمانت پر رہا ہے۔
نتیجہ:
متعدد میڈیا رپورٹس اور DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ حجاب نہ پہننے پر خون میں لت پت ایرانی بچی کو زدوکوب کیے جانے کا دعویٰ فیک ہے، کیونکہ بچی آپسی جھگڑے میں زخمی ہوئی ہے۔