چین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کورونا کا نیا ویریئنٹ BF7 سامنے آ چکا ہے۔ ایسے میں بھارت نے بھی چوتھی لہر کے خدشے کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دی ہیں۔ نئے کیسز کی طبی جانچ کے لیے تمام سیمپل کی جینوم سیکوینسنگ کی جا رہی ہے۔
اس دوران ایک پاکستانی یوزر فاطمہ زہرا نے ٹویٹر پر ایک پوسٹر شیئر کیا، جس پر لکھا کہ کووڈ-19 کی وجہ سے جموں و کشمیر کی صورتحال چیلنجنگ ہو گئی ہے۔ اس پوسٹر میں بتایا گیا تھا کہ ریاست میں نئے کیسز کی تعداد 2000 ہے، ایکٹیو کیسز کی تعداد 13400 ہے اور کیسز کی شرح نمو 8.12 فیصد ہے۔
یوزر نے پوسٹر کے کیپشن میں لکھا کہ-’بھارت ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی بین الاقوامی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے اور وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کی اجازت بھی نہیں دیتا ہے۔ #KashmiriLivesMatter‘۔
فیکٹ چیک:
پاکستانی یوزر کے دعوے کا فیکٹ چیک کرنے کے لیے DFRAC ٹیم نے جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے نئے کیسز کے ڈیٹا کو اکٹھا کیا۔ اس دوران، ہمیں جموں و کشمیر کے معروف اخبار ڈیلی ایکسیلسیئر کی 27 دسمبر کو پبلش ایک رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریاست میں آج کووڈ-19 کے 5 نئے کیسز درج ہوئے ہیں۔ ان میں جموں ڈویژن میں دو اور وادی کشمیر میں تین کیسز شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان تین نئے کیسز کی آمد کے ساتھ ہی مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ایکٹیو کیسز کی تعداد بڑھ کر 18 ہو گئی ہے، جو پہلے 15 تھی۔
اس کے علاوہ، ہم نے صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی ویب سائٹ سے بھی ان اعداد و شمار کی تصدیق کی۔ وہاں بھی فعال (ایکٹیو) کیسز کی کل تعداد محض 18 بتائی گئی ہے۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ پاکستان کا یہ دعویٰ کہ جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 2000 نئے کیسز، 13400 ایکٹیو کیسز اور گروتھ ریٹ (شرح نمو) 8.12 فیصد ہونے کا دعویٰ مکمل طور ر فیک ہے۔