تصویروں کا ایک کولاج سوشل میڈیا سائٹس پر وائرل ہو رہا ہے۔ اس تصویر میں ایک لڑکی کولڈ فریزر میں برہنہ پڑی ہوئی ہے۔ ان تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر کاجل نامی لڑکی کی ہے جو غفار نامی شخص کے ساتھ رلیشن شِپ میں تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ سات مسلم لڑکوں نے اس کے ساتھ ریپ کیا اور فریز میں بند کر دیا، جس کے سبب اس کی موت ہو گئی۔
اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے اتر پردیش کے یوگیندر سنگھ کوشامبی ضلع صدر نام کے ایک یوزر نے کیپشن دیا،’بریکنگ نیوز آسام میں ایک اور شردھا ہوئی فریز میں پیک۔ لِیو اِن رلیشن شپ میں رہ رہی کاجل کو غفار نے پہلے تو سات مسلم لڑکوں سے ریپ کروایا پھر زندہ ہی بے ہوشی کی حالت میں فریز میں پَیک کر دیا جس کے نتیجے میں ٹھنڈ سے اس کی موت ہو گئی‘۔
اس درمیان کئی دیگر سوشل میڈیا یوزرس بھی یہی دعویٰ کر رہے ہیں۔
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے انٹرنیٹ پر تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔ ہمیں بلاگ اسپاٹ مِزیسٹری کی جانب سے 02 مارچ 2010 کو پبلش ایک رپورٹ ملی، جس میں لڑکی کی تصویر کو پوسٹ کیا گیا ہے، جس کی سرخی ہے،’برہنہ حالت میں لڑکی کو فریزر کے اندر موت کے لیے چھوڑ دیا گیا‘۔ (اردو ترجمہ)
دریں اثنا، مزید سرچ کرنے پر، ٹیم کو 2010 میں پرتگالی زبان میں پبلش ایک اور بلاگ ملا، جسے کیپشن دیا گیا ہے،’خاتون کو مار ڈالا اور فریزر میں چھپا دیا‘۔ (اردو ترجمہ)
وہیں، ہمیں آسام پولیس کا ایک ٹویٹ ملا جس میں اس نے لوگوں کو فیک نیوز سے الرٹ رہنے کے لیے لوگوں کو آگاہ کیا ہے۔ پولیس نے ٹویٹ کیا،’#FakeAlert 2010 کے ایک پرتگالی بلاگ سے ایک تصویر سوشل میڈیا پر مکمل طور پر غلط تناظر کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہے۔ ایسے پیغام کو شیئر کرنے والوں کے خلاف مناسب کاروائی کی جائے گی۔ اصل ماخذ: noticiasdeitabuna
نتیجہ:
DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ وائرل تصویر 10 سال پرانی ہے اور اس تصویر کو فرقہ وارانہ اینگل دیا گیا ہے۔ تصویر آسام کی نہیں پرتگال کی ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ فیک ہے۔