سوشل میڈیا پر دو تصویروں کا ایک کولاج جم کر شیئر کیا جا رہا ہے۔ پہلی تصویر میں ایک خاتون برہنہ حالت میں پڑی نظر آ رہی ہے تو وہیں دوسری تصویر میں کچھ لوگوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ سوشل میڈیا یوزرس اس کولاج کو شیئر کرکے دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ تصویریں 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے وقت کی ہیں، جب ہندوؤں پر ظلم و ستم کیا گیا تھا۔
اس کولاج کو شیئر کرتے ہوئے ایک یوزر نے لکھا- دوستو! 1947 کی کچھ تصویریں شیئر کر رہا ہوں، آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ہندوؤں نے کیسا خوفناک وقت دیکھا تھا اور کانگریس نے اسے کیسے چھپایا، نہرو گاندھی نے ملک کو کیا دیا‘۔
وہیں کئی دیگر سوشل میڈیا یوزرس ان تصویروں کو شیئر کر رہے ہیں۔
فیکٹ چیک:
وائرل کولاج کا فیکٹ چیک کرنے کے لیے DFRAC کی ٹیم نے دونوں تصویروں کو ایڈٹ کرکے الگ الگ کیا اور انھیں ریورس امیج سرچ کیا۔ یہاں ہم دونوں تصویروں کا الگ الگ فیکٹ چیک کر رہے ہیں۔
پہلی تصویر کا فیکٹ چیک:
برہنہ حالت میں خاتون کی تصویر کو ریورس امیج سرچ کرنے پر ہمیں بنگلہ زبان میں پبلش ایک رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1971کی جنگ کے دوران پاکستانی فوجیوں نے بنگالی خواتین کی عصمت دری کی تھی۔ اس رپورٹ میں بنگلہ دیش کے عوام پر پاکستانی فوجیوں کی بربریت اور بہیمانہ سلوک کو بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔
دوسری تصویر کا فیکٹ چیک:
وائرل کولاج کی دوسری تصویر کا فیکٹ چیک کرنے کے لیے ہم نے ریورس امیج سرچ کیا۔ ہمیں سی این این نیوز کی ایک رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تصویر کولکاتا میں ہندو مسلم فساد کے دوران 1946کی ہے۔
نتیجہ:
کولاج کی دونوں تصویروں کا فیکٹ چیک کے بعد یہ واضح ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہے کیونکہ برہنہ حالت میں خاتون کی تصویر 1971 میں بنگلہ دیش میں پاکستانی فوجیوں کی جانب سے کی گئی بربرتا اور ظلم و ستم کی ہے۔ وہیں دوسری تصویر 1947 کی نہیں بلکہ 1946 کی ہے۔