سوشل میڈیا پر بھارت مخالف پروپیگنڈا نہ تو کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی اس کے لیے فیک نیوز اور گمراکن معلومات کا سہارا لیا جانا کوئی نیا ہے۔ بھارت کے خلاف اس طرح کے پروپیگنڈے میں ہمسایہ ممالک بالخصوص چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے سوشل میڈیا یوزرس ملوث رہتے ہیں۔ یہ یوزرس بھارت کی مسلم مخالف شبیہ بنانے کے لیے فیک ویڈیو اور تصاویر کا سہارا لیتے ہیں۔
ہندوستان کے بارے میں ایسا ہی ایک دعویٰ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ خون میں لتھڑے ہوئے ایک بچے کی تصویر کو شیئر کرتے ہوئے ایک یوزر نے بنگلہ زبان میں لکھا،’হে আল্লাহ্ জালীমদের হাত থেকে তুমি কাশ্মীরের মুসলমান মানুষ গুলোকে রক্ষা করো।‘جس کا گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے اردو ترجمہ ہے-’اے مالک، بے دینوں کے ہاتھوں سے کشمیر کے مسلم عوام کی حفاظت کر‘۔
فیکٹ چیک:
وائرل تصویر کا فیکٹ چیک کرنے کے لیے DFRAC کی ٹیم نے پہلے تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔ ہمیں ترکی کی ویب سائٹ’ڈیلی صباح‘ پر 25 مارچ 2016 کو پبلش ایک رپورٹ میں ملی۔ وائرل تصویر اس رپورٹ میں شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ تصویر شام سے تعلق رکھنے والے ایک بچے کی ہے جس کے چہرے پر ڈر اور خوف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ- ’ تصویر: اے ایف پی کے لیے شامی فوٹوگرافر عبد ڈومَینی (Abd Doumany) نے لی ہے۔ ایک زخمی بچے کی آنکھوں میں جذبات کا گہرا کواں دکھاتے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی ایک تصیور۔ یہ تصیور شام میں گذشتہ کئی برسوں کی ہولناکیوں کو سمیٹے ہوئے ہے، جسے بین الاقوامی جوری کی جانب سے سال 2016 کا بیسٹ فوٹو چنا گیا تھا۔ اس فوٹو کو انادولو ایجنسی (اے اے) کے دوسرے استنبول فوٹو ایوارڈ سے نوازا گیا‘۔
نتیجہ:
DFRAC کے فیکٹ چیک سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ تصویر بھارتی ریاست جموں و کشمیر کی نہیں بلکہ 2015 میں شام حملے کے دوران کی ہے، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہے۔
دعویٰ نمبر-2
سوشل میڈیا پر ایک نیوز کی کلیپنگ وائرل کرکے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے کارکنان نے دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے مسلم طلبہ پر حملہ کیا اور انھیں جم کر زد و کوب کیا۔ ایک یوزر نے لکھا،’বিজেপির সন্ত্রাসীরা দিল্লির জওহরলাল বিশ্ববিদ্যালয়ে মুসলমান ছাত্রদের উপর হামলা করে অথচ ভারতীয় পুলিশ উল্টো মুসলমান শিক্ষার্থীদের বিরুদ্ধে মামলা করেছে। এই নির্যাতনের শেষ কোথায়? হে আল্লাহ নির্যাতিত মুসলমানদের হেফাজত করো। আমীন‘۔
متذکرہ ٹیکسٹ کو گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے،’دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں بی جے پی کے دہشت گردوں نے مسلم طلبہ پر حملہ کیا جبکہ بھارتی پولیس نے اس کے برعکس مسلم طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ اس اذیت کی انتہا کہاں ہے؟ یا اللہ مظلوم مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ آمین‘۔
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کی غرض سے ڈی ایف آر اے سی کی ٹیم نے گوگل پر ایک سمپل سرچ کیا۔ ہمیں ’آج تک‘ کی ایک رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ کے مطابق جے این یو میں طلبہ پر نقاب پوش بدمعاشوں نے حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں جے این یو کی طلبہ یونین (ایس یو) کی سابق صدر آئشی گھوش سمیت کئی طلبہ زخمی ہوئے تھے۔
نتیجہ:
DFRAC کے فیکٹ چیک سے یہ واضح ہے کہ سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہےکیونکہ جے این یو میں حملہ صرف مسلم طلبہ پر نہیں بلکہ تمام طلبہ پر کیا گیا تھا۔